Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Wasim Qureshi
  4. Taleem Ki Ahmiyat Aur Kirdar

Taleem Ki Ahmiyat Aur Kirdar

تعلیم کی اہمیت اور کردار

ایک مڈل پاس مزدور شخص، میرے پاس اپنے چھوٹے بھائی کو لے کر آیا تھا، کہ اسے ایف ایس سی کروانا چاہتے ہیں۔ تین دن تک مسلسل اس لڑکے سے گفتگو کے بعد سامنے آیا، کہ وہ ایف ایس سی نہیں بلکہ ایف اے کرنا چاہتا ہے۔ میں نے اس کے بڑے بھائی کے سامنے ساری تفصیل بیان کی، اور اسے سمجھایا کہ جو بچہ کرنا چاہتا ہے، اسے وہی کرنے دیں۔ صرف ڈاکٹر یا انجینئر والی سوچ ذہن سے نکال دیں، کیوں کہ دنیا میں ان کے علاوہ بھی بہت ساری فیلڈ موجود ہیں۔

اس کے بعد کہا گیا" ٹھیک ہے وسیم صاحب، ایف اے کا جو گروپ آپ تجویز کریں، اسی میں داخلہ کروا دیتے ہیں "۔ میں نے کہا معذرت، ایف اے میں نے نہیں، بلکہ آپ کے بھائی نے کرنا ہے، تو گروپ میری مرضی نہیں بلکہ سٹوڈنٹ کی دلچسپی کے مطابق ہونا چاہیے۔ یوں مزید دس دن کا وقت لیا، اور اس سٹوڈنٹ کے ساتھ باری باری ایف اے کے تمام گروپس کے مضامین پر گفتگو کی اور تفصیلی مکالمہ کیا۔ اس کے بعد اس سٹوڈنٹ نے اپنے گروپ کا انتخاب خود کیا۔

اس سٹوڈنٹ کو سخت محنت کرنے کا شوق ہے، اور وہ اس کے ساتھ ساتھ کچھ اور بھی کرنا چاہتا تھا۔ میں نے کچھ مشورے دیئے اور ساتھ ہی کہا کہ یہ سافٹ سکلز کا دور ہے، اس زمانے کے مطابق چلو، اگر کچھ کرنے کا ارادہ ہے۔ صرف اپنی ڈگریوں تک محدود مت رہنا۔ سکلِز سیکھ لو، جو آپ کے کام آئیں اور آپ کو زمانہ طالب علمی میں ہی کسی قابل بنا دیں۔ یوں اس لڑکے نے فری لانسنگ کا کورس بھی شروع کر دیا ہے۔

میں سلام پیش کرتا ہوں اس مزدور بھائی کو، جس نے اپنے چھوٹے بھائی کیلئے اتنی جدوجہد کی، اور کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کی۔ اس کی کاونسلنگ تو میں کر دیتا تھا، لیکن یہ اپنے گھر جا کر اپنے والدین کو موٹیویٹ کرتا، کہ جو چھوٹا بھائی کرنا چاہتا ہے اسے وہی کرنے دیں۔ فوراََ سے، اپنے بھائی کو ایک لیپ ٹاپ بھی خرید کر دے دیا ہے۔ کہتا ہے" میں ایک سال سے چھوٹے بھائی کیلئے پیسے جمع کر رہا تھا، کہ میٹرک کے امتحان کے بعد اس کے کام آئیں گے"۔

میں نے آخر میں پوچھا، کہ اتنی قربانیاں وہ بھی بھائی کیلئے، یہ جذبہ کہاں سے آیا؟ وسیم صاحب، مجھے بچپن میں تعلیم حاصل کرنے کا بہت شوق تھا، لیکن مالی حالات نے اجازت نہیں دی۔ والد صاحب مزدور تھے، اور ہم گیارہ بہن بھائی۔ میں آٹے کی چکی پر بھی کام کرتا رہا کہ کسی طرح پڑھائی جاری رکھ سکوں، لیکن سکول میں اساتذہ کے طنزیہ جملوں نے مجھے تعلیم چھوڑنے پر مجبور کر دیا تھا۔ اب ہم تین بھائی اور والد صاحب، چار لوگ کام کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے خوشحالی دی، بہت دیا مالک کی ذات نے، مگر محسوس ہوتا ہے کہ گھر میں ایک پڑھے لکھے شخص کا ہونا بہت ضروری ہے۔

ہسپتال کا کوئی کام ہو یا باہر کا، ہمیں تو پڑھنا تک نہیں آتا۔ اس وجہ سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میرے بچے اور بھتیجے بڑے ہو رہے ہیں، اور میں چاہتا ہوں یہ بھائی پڑھ جائے، یوں میرا شوق بھی پورا ہو جائے گا، اور ہمارے بچوں کو تعلیم کیلئے سپورٹ بھی مل جائے گی۔ داخلہ فارم، سکول کے مسائل، تعلیمی میدان میں حائل رکاوٹیں اور اس کے علاوہ سو لوگوں میں بیٹھا، تعلیم یافتہ شخص سب سے منفرد نظر آتا ہے۔ ورنہ دولت بھی کسی کام نہیں آتی۔ (میں خاموشی سے یہ سب سنتا رہا)آخر میں الگ سے اس بچے کو کہا۔

آپ خوش قسمت ہیں کہ آپ کو ایسا بھائی ملا ہے۔ اتنی جلدی آپ کیلئے تمام وسائل پیدا کیے، اور آپ کا بھائی ایک باشعور شخص ہے، کیوں کہ جو" کیرئیر کاؤنسلنگ" کرتے وقت ہمیں پڑھے لکھے والدین سے ٹکر لینی پڑتی ہے، آپ کا بھائی ان کئی لوگوں سے بہتر اور سمجھدار نِکلا۔ اس کی ساری زندگی عزت کرنا، اور محنت سے کبھی نظریں مت چرانا۔ یہی وقت ہے۔ کچھ سال کمفرٹ زون سے نکل کر شدید محنت کرو۔

Check Also

Jo Tha Nahi Hai Jo Hai Na Hoga

By Saad Ullah Jan Barq