Takhayul
تخیل
وہ شخص اس قدر گفتار ہے کہ باتوں ہی باتوں میں من موہ لیتا ہے۔ اس کے نام و نسب کو چھوڑو اس کی آنکھوں کی تاثیر میں وہ لذت ہے کہ وہ لہجوں کی مٹھاس کا پرانا پاپی معلوم ہوتا ہے۔ چشم یار زیرِ آسماں میں مقیم کسی گوہرِ نایاب کہ جیسی ہے کہ مجھ سے شاعر اور لکھاری صف آرا ہو کر غزلوں اور افسانوں کا مداوا لئے پھرتے ہیں۔
اس کے کوچے میں سب کے سب بھکاری ہیں پھر کیا مسلم، کیا برہمن، کیا شیخ اور کیا چوہدری، اس کی تعریف میں سارے کے سارے ہی ہمزباں ہو کر عاجزی کے ساتھ تشنہ ناکامی، صلہ ناتمامی سے رنگ میں رنگیں ہو کر بوند بوند قطرہ قطرہ اپنا لہو ہدیہ کے طور پر پیش کرنے صف اول، سر فہرست بنا کسی عزر کے پیش پیش رہتے ہیں۔
اس کی سریلی آواز جیسے صدائے آبشاراں، صدائے بہاراں ایسی ہے کہ کان میں جادوئی اور رسیلے رس گھولتی ہے کہ سننے والے اپنے عقل و ہوش کھو کر آئینہ دل کے جنوں میں گرم سخن ہو کر حلقہ احباب میں سلیقہ ادب کے ساتھ کسی مہذب عاشق کی طرح ارادہ خود کشی کی الفت میں ذکر یار کی تسبیح میں دستورِ محبت کا ورد کرتے کرتے عشق کے تعویذ گریباں میں ڈالے جھومتے رہتے ہیں۔ اہل ادب، اہل علم، اہل ذوق اور اہل بصیرت بھی فرش تئیں کمر کے بل لیٹ کر حسن کا ہدیہ پیش کرتے ہیں۔
اس کی ایک صدا پر طیور و شتر، شیخ و برہمن، ہندو و مسلم، گل و گلستاں، بلبل و باغباں، گلشن و شبنم، منزل و مسافر، باد و نسیم، گھٹا و طوفاں، مجنوں و لیلیٰ، مرزا و فرہاد، ہیر و رانجھا، مہر و مہ، ساقی و میکدہ، شمع و پروانہ، گل و لالہ، عربی و عجم، ساغر و موجاں، وادی و کوہسار، صبح و شام، باد و صبا، زاہد و زاہداں، سر و ساز، غنچہ و ڈالی، مرغ و حرم سب کے سب ہی سحر میں ڈوب کر جاوداں ہو جاتے ہیں۔
اس کے مخمل سے ریشمی ہاتھوں کی انگلیاں اس قدر نازک ہیں کہ کسی بنجر زمین یا ریگستان کو بھی چھو لیں تو سیراب کر دیں۔ اس کے ایک دیدار کی جھلک قلب و جگر اور روح و جسم کو گہری تسکین میں مبتلا کر دیتی ہے۔ اک ایسی شمع کہ کوئی بھی پروانہ طوافِ شمع کی طلب میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس کی حلقہ گردن میں وہ سوز و ساز ہیں کہ لب و لہجہ ایسی تاثیر رکھتا ہے کہ چن چن کر بیماروں کو شفاء عطا کر سکتا ہے جیسے فضائے دشت میں کوئی مرغ تخیل یا مرغ حرم اپنے ساز و سر کو بکھیرتا ہو۔