Takhayul Ki Parwaz
تخیل کی پرواز
وقت کی دہلیز پر میرے قدم یوں چل رہے ہیں کہ جیسے کوئی مجنوں دشت کی گرم ریت پر اپنی ایڑیاں اس قدر رگڑے کہ ان میں آبلے پڑ جائیں اور پھر چلتے چلتے ان آبلوں سے گندے پانی کی جگہ لہو اس قدر رسنا شروع کر دے کہ اس لہو سے صحرا کی گرم ریت بھی ٹھنڈی پڑ جائے۔۔
کمرے کی دیواروں پر میرے ماضی کی تصاویر لٹکی ہیں۔ ان تصاویر کی جھلک دیکھنے کیلئے ہاتھ سے سگریٹ کا دھواں ہٹانے کی کوشش کرتا ہوں تو سلگتی سگریٹ میری کلائی پر اپنے نقش گاڑ دیتی ہے۔
میری آنکھوں کے آگے کچھ پتنگے رقص کرنے لگتے ہیں اور کمرے میں جلتی یہ شمع ان پتنگوں کے لہو سے مزید تیز ہونے کی بجائے مدھم ہونے لگتی ہے۔ پتنگے اپنی جان کی بازی لگا کر اس تصویر کا عکس واضح کرنے کی مسلسل کوشش میں ہیں مگر یہ سگریٹ اور شمع ہیں کہ اس تصویر کو دھندلا کرنے میں مصروفِ عمل ہیں۔ اس شمع کا بھلا جاتا کیا ہے؟ سگریٹ کو بجھا دیتا ہوں تاکہ دھوئیں کی شدت میں کچھ کمی واقع ہو مگر یہ شمع خود چل کر میری طرف آتی ہے اور پھر سے اس سگریٹ کو سلگا دیتی ہے اور سارا کمرہ پھر سے دھوئیں کی زد میں آ جاتا ہے۔
اک دلِ ناداں ہے کہ خواہشات کا سمندر ہے، روز ہزاروں خواہشیں اس پگلے میں جنم لیتی ہیں اور لاکھوں حسرتیں اپنی موت آپ مر جاتی ہیں۔ شام ڈھلے جب تاریکی دنیا جہاں کے اُجالے کو اپنی لپیٹ میں لے کر تمام روشنیوں کا گلا گھونٹ دیتی ہے اور سارے جُگنو اپنے اپنے گھروں کو واپس لوٹ جاتے ہیں تو میں ایک گہری قبر کی کھدائی کرتا ہوں۔ تمام مردہ خواہشات کی فاتحہ پڑھ کر اس قبر میں دفن کرنے کے بعد کسی ہندو بنیے کی طرح اپنے اس خزانے پر ایک سانپ کے بچے کو بطور دروگا بٹھا کر اس امید سے واپس پلٹ جاتا ہوں کہ یہ سانپ ان خواہشات کو اس قبر سے باہر آنے کی ہرگز اجازت نہیں دے گا۔ لیکن یہ سانپ بھی کسی آستیں کے سانپ جیسا ہے۔ یہ بھی وعدہ وفا نہیں کرتا اور دودھ کی جگہ میرا لہو پینے کے بعد بھی یہ سانپ اپنے فرائض ادا نہیں کرتا اور اگلے ہی روز یہ تمام دفن شدہ خواہشیں رات کی تاریکی میں، میرے خواب میں آ کر مجھے کسی دیو کی طرح ڈرانے لگتی ہیں اور جب ادھوری نیند اور آنکھوں کی جلن کے ساتھ میں جاگ کر بیٹھ جاتا ہوں، میری سانسیں اکھڑنے لگتی ہیں، میرا جسم تپش سے جلنے لگتا ہے اور شدید سرد راتوں میں جب پسینہ مجھے شرابور کر دیتا ہے تو یہ تمام حسرتیں کسی سرکس کے جوکر کی مانند میرے حال پر کھل کھلا کر ہنسنے لگتی ہیں۔۔
تمہارے ارد گرد تو تتلیوں کا ہجوم لگا رہتا ہے، پھولوں کی مہک بھی تمہارے چاروں اطراف پھیلی رہتی ہے اور پرندے تو ازل سے ہی تمہارے دیوانے معلوم ہوتے ہیں۔
تمہاری گلی میں پروانے تاریک راتوں میں اُجالا کرتے ہیں اور صبح سورج کے طلوع ہونے سے پہلے ہی یہ پروانے اپنی زندگی کا دورانیہ مکمل کرتے ہیں اور موت ان کا مقدر بنتی ہے مگر اگلی ہی رات پھر سے پروانوں کا ایک اور لشکر تمہاری گلی میں اُجالا کرنے پہنچ جاتا ہے۔
اور ایک میں ہوں کہ ایک شمع روشن کیے ہوئے ہوں اور کبھی اس شمع کی جانب آنے والی ہوا کا راستہ روکنے کی کوشش کرتا ہوں تو کبھی خراب موسم کے ڈر سے اس شمع کو اپنے دامن سے لگا کر اس کی تپش میں جلتا ہوں مگر اس شمع کی لو کو بجھنے نہیں دیتا۔
میں اک ایسا شخص ہوں جس کا کل اثاثہ یہی شمع ہے جس کے سوا مجھ محبت میں ہارے اور غربت کے مارے شخص کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔
ایک اور بات جو میرے سر کو درد سے بھاری کر دیتی ہے، میرے کلیجے کو پھاڑ دیتی ہے اور میرے دامن کو یوں اذیت دیتی ہے جیسے کسی تیز دھار نوکیلے خنجر سے میری پشت اور میرے سینے کو چیر کر میرے لہو میں زہر ملا کر پھر اس چاک سینے کو کالے نمک کے پیوند لگا کر بند کیا گیا ہو اور نسخے پر لکھا گیا ہو کہ
"موت کے آخری پل تک ہر اک پل ان زخموں پر نمک لگا کر تازہ رکھنا ہی اس شخص کو زندہ رکھ سکتا ہے"
رات کی تاریکی میں سگریٹ پیتے وقت مجھے اندھیرے میں رہنا بہت پسند ہے، اس دوران میرے سگریٹ کے سلگنے سے جو مدھم سی روشنی اور چنگاری نکل رہی ہوتی ہے۔ اس پر جانے کتنے ہی پروانے اپنی جان نچھاور کرتے ہوئے فنا ہو جاتے ہیں مگر شکایت تک نہیں کرتے۔
بہت مرتبہ میں کمرے میں ہوا دیتے پنکھے کو بھی بند کر دیتا ہوں اور میرے جسم سے لگا تار بہنے والا پسینہ رفتہ رفتہ میرے جسم کو ٹھنڈا کرنے لگتا ہے اور میں کمرے کی دیواروں پر ٹہلتے ایک شخص کا عکس دیکھ کر پہلے تو سہم جاتا ہوں کہ مکمل اندھیرے میں جہاں روشنی کا تصور تک نہیں وہاں کسی کا عکس بھلا کیسے ممکن ہے؟
کچھ ہی دیر میں جسم سے روح کے پرواز کرنے کا احساس ہونے لگتا ہے جیسے کوئی میرے اندر سے درد نچوڑ کر لے جا رہا ہو کیونکہ جسم میں روح کا موجود ہونا بھی تو بڑی اذیت ہے۔
عجب سے فلسفے میرے وہم و گمان میں اترنے لگتے ہیں، یوں لگتا ہے جیسے کوئی مجھے پکار رہا ہے اور اس کی آواز میرے کانوں کو چھو کر ایسے گزرتی ہے جیسے کوئی تیر کان کے کونے سے چھو کر گزرے مگر ساتھ ہی کان کا نصف حصہ بھی لے گزرے اور ٹپکتے لہو کے قطرے سفید لباس کو بھی شوخ سرخ رنگ میں بدل ڈالیں۔
میرے ہاتھ میں موجود سگریٹ اکیلے نہیں جلتی بلکہ اس سلگتی سگریٹ کے ساتھ ساتھ میرا وجود بھی جلتا ہے، ہر اک کش پر میرے اندر سے دھوئیں کی نہ رکنے والی لڑی نکلتی ہے اور وجود کے جلنے کی بو مجھے راحت بخشتی ہے مگر یہ الگ بات ہے کہ دیکھنے والوں کو سلگتی سگریٹ نظر آتی ہے اور پینے والے کو جلتے دیکھنا ممکن نہیں۔
قلم کو ہاتھ میں تھامے کانپتے ہاتھوں اور لرزتے دل کی سہمی دھڑکن کے ساتھ خود کی کیفیت کو بیان کرنے لگتا ہوں تو کمرے کی دیواروں پر الفاظ ناچنے لگتے ہیں اور ایک چہرہ میری بے بسی پر مسکراتا ہے، مجھ پر فقرے کستا ہے، میرا مزاق اڑاتا ہے اور میں آنکھیں بند کر لیتا ہوں مگر پھر میرے کانوں میں گونجتی آوازیں درد بن جاتی ہیں اور میں پھر کانوں پر ہاتھ رکھ لیتا ہوں۔
ایک تن تنہا اور اکیلا شخص جس کے ارد گرد لوگوں کا جم غفیر ہے مگر اندر سے خالی دھواں سا، قبرستاں سا، جلتا کارواں سا، زرد پتوں اور موسم خزاں سا ایک ناکارہ، نکما اور آوارہ شخص ہوں میں۔
"خود نہیں جانتا کہ کہاں مقیم ہوں میں، کوئی تو آ کر بتلائے کہ ہاں ہاں" وسیم " ہوں میں"۔
۔ تنہائیوں کا ایک پورا شہر میرے اندر بسیرا کئے ہوئے ہے اور میں ہوں کہ محفلوں کی رونق بن کر اس شہر میں بسنے والے باسیوں کے خلوص اور محبت کو مسلسل دھتکار رہا ہوں مگر وقت سے آگے چلنے کی لگن مجھے تھکا رہی ہے۔
میرے ارد گرد موجود لوگ اور قریبی رشتے کبھی طبیب تو کبھی رفو گراں کا کردار ادا کرتے ہیں اور میرے زخموں کا مداوا کرتے کرتے جانے کتنی ہی لا علاج بیماریوں کے علاج دریافت ہو چکے ہیں۔
کبھی کبھی ایک کے بعد ایک سگریٹ پینے سے جب میری سانس اکھڑ جاتی ہے اور میرے سینے میں جلن کی شدت اس قدر بڑھنے لگتی ہے کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ سانس میری زندگی کی آخری سانس ہے۔
میں لکھاری ہوں مگر تاجر نہیں ہوں کیونکہ میں اپنے لکھے کی کسی سے قیمت وصول نہیں کرتا اور مجھے جذبات و احساسات کی تجارت کرنے کا قطعاً شوق نہیں ہے۔ میں درد بھی لکھتا ہوں، دوا بھی اور نسخے کے آخر میں علاج لکھنا بھی میری ترجیحات میں شامل ہے۔
میں ہر طرح کے ماحول میں اور ہر قسم کے لوگوں میں رہنے اور ساتھ چلنے کا ہنر جانتا ہوں، میں جانے والوں کو یاد تو رکھتا ہوں مگر ان کے واپس لوٹ آنے کی یا ان کے پچھتاوے کی تمنا کبھی نہیں کرتا کیونکہ مجھے تقسیم شدہ لوگ بالکل بھی پسند نہیں ہیں۔
میرے قلم کے دامن میں اتنے موضوع ہیں کہ لکھ لکھ کر میں تو تھک چکا ہوں مگر یہ قلم رکنے کا نام ہی نہیں لیتا اور لاکھ کوشش کے باوجود بھی میں اس قلم سے لا تعلقی اختیار نہیں کر پاتا کیونکہ جب میں تنہا تھا اور میرے پاس اپنا دل ہلکا کرنے کیلئے کوئی سہارا موجود نہیں تھا اور مجھے درد سننے والے کان میسر نہیں تھے تو یہی قلم تھا۔ جو میرا سہارا بنا تھا اور کچھ کاغذ تھے جنہوں نے درد سننے والے کان مجھے مہیا کیے تھے اور ایک تنہائی تھی جس نے مجھے گلے سے لگا کر میرا درد بانٹا تھا۔
میں اپنی عمر سے بہت بڑا لگتا ہوں مگر بڑا میں نہیں بڑے تو پیش آنے والے حادثے تھے۔ جنہوں نے ایک نوجوان کو بزرگی کا تحفہ عنایت کیا ہے۔ میرے چہرے پر جو جھریوں کے نشان ہیں یہ درحقیقت وہ لکیریں ہیں جن پر حادثات کی ایک طویل فہرست درج ہے۔
میں نے حادثات پر ماتم نہیں کیا بلکہ ان کا مشکور ہوں کہ مجھے سمجھنے اور سوچنے کی صلاحیت بخشی کیونکہ میری نظر میں حادثے تو ہوتے ہی سمجھانے کیلئے ہیں وگرنہ عقل تو کسی دکان پر نہیں ملتی۔