Takhayul Aur Likhari
تخیل اور لکھاری
تخیل کی جنگ میں ایک لکھاری کیلئے ہار جیت سے زیادہ تخیل کا مکمل ہونا اہمیت رکھتا ہے، لکھاری جب کسی تخیل کی گہری کھائی میں اتر جائے تو تاریک راستوں یا سرد راتوں کی بجائے قرطاس پر بکھرے حروف اور قلم کی تکلیف کے بارے سوچتا ہے۔ کچھ نامکمل رہ جائے تو لکھاری کے ساتھ ساتھ قرطاس اور قلم بھی شدت کی تکلیف سے گزرتے ہیں۔
سوچ کے دیوان جب الفاظ کو یکجا کرنے کی کوشش میں گمنام راہوں کے مسافر بنتے ہیں تو درحقیقت لکھاری کو جسم سے روح کے جدا ہونے کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ لکھاری کی جان روح کی بجائے اس کے تخیل میں ہوتی ہے۔ قلم ایک ایسے طوطے کی حیثیت رکھتا ہے کہ جس کی گردن توڑ دی جائے تو لکھاری کی موت واقع ہو سکتی ہے۔ لکھاری کا تخیل پروان چڑھ جائے تو اس کی سوچ کے دریچے پھر کہکشاں کی خوب صورت وادیوں میں کسی حسین زلفوں کے سائے میں یوں بسیرا کرتے ہیں کہ سرد ہوا بھی تپتے صحرا کا منظر پیش کرتی ہے۔
اندر کہیں اک قبرستان سی گہری خاموشی اور باہر اک جنگل میں بھڑکتی آگ کا منظر، باطن یوں کہ قرطاس پر حروف کی صورت میں لہو تھوک دیا جائے اور ظاہر جیسے صبر کرتے کسی ستر سالہ بوڑھے سی کیفیت جو محرومی کے باوجود تسلی کا ڈھولک لیے پھرتا ہو۔ کچھ لوگ پاگل کہتے ہیں، کچھ دیوانہ اور کچھ لوگ عقل سے پیدل سمجھتے ہیں، لکھنا آسان عمل نہیں ہے، ایک لکھاری قرطاس پر حرف نہیں بلکہ اپنا لہو اتار دیتا ہے، جس طرح خون کی کمی ہوتی ہے ٹھیک اسی طرح یہ الفاظ کا جنم بھی لکھاری کو نچوڑ لیتا ہے۔
لکھاری کو اپنے الفاظ بچوں کی طرح پیارے ہوتے ہیں کیونکہ وہ انہیں کیسے جنم دیتا ہے، یہ بات وہ خود جانتا ہے، اس کا تخیل جانتا ہے یا پھر خدا ہی جانتا ہے۔ کوئی بات ادھوری رہ جائے تو بھوک یا پیاس لگنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ حروف اندر سے باہر نکلنے تک اس قدر تکلیف دیتے ہیں کہ جیسے کسی جسم سے روح کو کھینچا جا رہا ہو۔
ہم اندھیری رات کے مسافر، کبھی بلبل کے شیدائی، کبھی بہار کے دیوانے، کبھی خزاں کی حسرتیں، کبھی چاندنی رات کے طلب گار، کبھی ساون کے پیاسے، کبھی پھولوں کے اسیر، کبھی کانٹوں سے کھیلتے بچے کی مانند، کبھی ستر سالہ بزرگ کی طرح ضدی، کبھی موم کی طرح نرم، کبھی پتھر سے سخت، کبھی ڈھلتی رات سے، کبھی پھوٹتی صبح کے منظر سے، کبھی بہتے دریا سے اور کبھی اڑتی چڑیا کے نازک پنکھ کی مانند ہوتے ہیں۔
ہم محفل میں بھی تنہا سے رہتے ہیں، چلتی سڑک پر لکھنے ٹھہر جائیں تو گاڑیوں کا شور بھی ہمارے کانوں کو چھو کر نہیں گزرتا، تخیل کا کارواں جب چل پڑے تو ہم جسمانی طور پر بالکل مفلوج ہو جاتے ہیں، اس وقت صرف اور صرف ہماری سوچ اور ہمارا تخیل زندہ رہتا ہے۔