Nojawan Aur Mout Ko Gale Lagane Ki Koshish
نوجوان اور موت کو گلے لگانے کی کوشش
یہ خودکشی والے معاملے انتہائی خطرناک ہیں اور اس کی بڑی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی جانب سے یا پھر گھریلو ماحول میں والدین کی جانب سے بچوں کی ذہن سازی ہی نہیں کی جاتی۔ بچوں کو بتایا نہیں جاتا کہ کامیابی کے ساتھ ناکامی بھی ہوتی ہے اور زندگی جبر مسلسل کی طرح آخری سانس تک جدوجہد کرنے کا نام ہے۔ یہاں آپ نے جینا ہے یا آگے بڑھنا ہے تو آپ کو پیش آنے والے تمام حالات اور مسائل کیلئے تیار رہنا ہوگا۔ دل برداشتہ ہو کر موت کو گلے لگانے کی کوشش نہیں کرنی اگر ایک لمحے آپ ناکام ہیں تو اگلے لمحے میں کامیابیاں بھی حاصل ہوں گی۔ مشکلات ہیں تو آسانیاں بھی آئیں گی بس چلتے رہنا اور ثابت قدم رہنا ہے۔
یہاں ایسا کچھ نہیں ہوتا یہاں صرف اور صرف کامیابی حاصل کرنے کا خوف پیدا کیا جاتا ہے۔ امتحان کو ایک بڑے جن کی نظر سے متعارف کروایا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں بچوں کو اتنا خوف زدہ کر دیا جاتا ہے کہ ان کے پاس امتحان میں زیادہ سے زیادہ نمبر حاصل کرنے کیلئے گدھے اور جانور بن جانے کے سوا کوئی دوسرا راستہ باقی نہیں رہتا۔ استاد بھی کلاس میں مثالیں دیتے ہیں کہ تمہارے نمبر اچھے نہ آئے تو نوکری نہیں ملے گی اور نوکری نہ ملی تو تمہیں کوئی اپنی بیٹی نہیں دے گا۔
والدین بھی اپنا بھرپور کردار ادا کرتے ہیں کہ ہماری ناک مت کٹوا دینا۔ ہمارا سر نہ جھکا دینا۔ تمہارے چاچے کا بیٹا تایا کی بیٹی، میرے دوست کا بیٹا وغیرہ وغیرہ۔ ان سب کے سامنے میری عزت رکھ لینا۔ یہاں اس قدر سٹریس پیدا کی جاتی ہے کہ نتائج کا اعلان ہونے کے بعد بچوں کو کوئی ایک راستہ بھی نظر نہیں آتا۔ بالآخر وہ کوئی الٹی حرکت کر بیٹھتے ہیں۔ رہی سہی کسر ہمارے آج کل کے موٹیویشنل اسپیکر اور ٹرینرز نے پوری کر دی ہے۔
راتوں رات امیر بننے کے خواب۔ زیادہ پیسے کمانے کے طریقے، کم وقت میں بڑی کامیابی جیسے سستے چورن مہنگے داموں فروخت کرنے کیلئے تشہیر کی جاتی ہے۔ بڑی گاڑیاں اور مہنگے بنگلوں میں لاکھ روپے کی گھڑی پہن کر ویڈیوز بنائی جاتی ہیں۔ پچھلے دنوں ایک ٹرینر صاحب کی پوسٹ نظر سے گزری کہ "اگر آپ دنیا کو اپنے قابو میں کرنا چاہتے ہیں تو یہ کورس جوائن کریں"۔
میں نے ان کی اس پوسٹ پر مکالمہ کیا اور ہاتھ جوڑ کر درخواست کی کہ محترم آپ لوگوں کے ان فضول جملوں نے ہمارے نوجوانوں کو شارٹ کٹ کی طرف لگا دیا ہے جس کی وجہ سے یا وہ ڈپریشن کا شکار ہیں یا پھر راتوں رات امیر بننے کی سوچ نے انہیں غلط اور درست کا فرق مٹا دیا جس کی وجہ سے جرائم کی شرح میں بہت حد تک اضافہ ہوگیا ہے۔ یہ تمام معاملات ایک نوجوان کو زندگی سے بیزار کرتے ہیں اور وہ موت کو گلے لگانے کی سوچ میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
بحیثیت والدین اور ٹیچرز اس معاملے پر سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔ آپ کا بچہ زندگی میں کسی بھی وقت کامیاب ہو سکتا ہے اگر وہ زندہ رہا تو، جب تک سانسیں باقی ہیں تب تک کوئی راستہ، امید اور منزل بھی باقی ہے۔ زندہ رہنا شرط ہے۔ بچہ کسی مقام پر یا تو خود سیکھ جائے گا یا پھر زندگی کے لگنے والے تھپڑ اسے سیکھنے پر مجبور کر دیں گے۔ اس کے پاس کئی راستے ہوں گے، کئی بار کامیاب ہونے کے مواقع اس کے سامنے آئیں گے۔ وہ زندگی میں کسی نہ کسی فیلڈ میں کامیابی حاصل کر لے گا۔ یاد رکھیں کہ زندہ رہنا شرط ہے۔