Main Aur Muhabbat
میں اور محبت
تمہارے عشق نے پہلے مجھے حسین بنایا، جینے کی وجہ دی، تمہیں حاصل کرنے کی جستجو میں ایک نکما طالب علم کب آگے بڑھتا چلا گیا، یہ تم سے محبت کا اثر ہی تو تھا کہ میں اپنے خاندان کا وہ واحد لڑکا تھا جس نے سب سے پہلے یونیورسٹی کے گیٹ میں داخل ہو کر وہاں کی کرسیوں پر بیٹھ کر، یونیورسٹی سٹوڈنٹ کی حیثیت سے تعلیم حاصل کرنے کا اعزاز اپنے نام کر لیا۔ تمہیں پانے کی کوشش میں جو زندگی کے بارہ سال گزرے یقین جانو وہ میری زندگی کے سب سے حسین سال تھے کیوں کہ اس دوران میں نے جانا کہ " ہر شخص نہیں ہوتا ہر شخص کے قابل۔
تمہارے عشق میں محنت میری رگوں میں خون کی جگہ بہنے لگی، میری ہر ایک سانس کے ساتھ زندگی کی ایک حقیقت مجھ پر کھلی کتاب کی مانند نمایاں ہونے لگی، میں نے جان لیا کہ محبت ایک انمول جذبہ ہے یہ خدا کی طرف سے عنایت کی جاتی ہے۔ وہ لمحے جو میں نے تمہیں سوچ کر گزارے تھے اس دوران دراصل کئی راز پا لیے تھے۔ تمہاری جستجو میں خدا اپنے راز مجھ پر کھولنے لگا تھا۔ وہ وقت جب میں گھٹنوں کے بل بیٹھ کر تمہیں مانگنے کیلئے اپنے رب سے گفتگو کیا کرتا تھا اس دوران اس رب العزت نے میرے دل میں اپنی محبت کا ایک ذرہ ڈال دیا تھا جو وقت کے ساتھ ساتھ نمو پانے لگا اور پھر سمندر بن گیا۔
تمہارے عشق میں مجھے واصف علی واصف صاحب جیسی شخصیت مل گئی، سوچتا ہوں کہ تمہیں پا لینے کے بعد بھلا" گفتگو" کا مطالعہ کرنے کا موقع کیسے ملتا؟ اس دن میرے آفس کی میز پر واصف علی واصف صاحب کی کتاب کیسے آتی؟ وہ جو اندر بہت سے سوال اکٹھے ہو رہے تھے میں ان کا جواب کیسے تلاش کرتا؟ خدا کی ذات بھی کیا خوب بہانے تلاش کر لیتی ہے جب اس نے کسی کی اپنے بندوں یا خود سے ملاقات طے کرنی ہو، وہ پہلے خلا پیدا کرتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ اسے پورا کرنے کیلئے اپنے بندے کے دل میں اپنے ہی کسی اور بندے کے زریعے سے داخل ہوتا ہے اور پھر مستقل قیام گاہ بنا لیتا ہے۔
بے قراری کی کیفیت سکون میں بدل جاتی ہے، نااُمید شخص کو امید کا چراغ مل جاتا ہے۔ بیمار کو شفاء مل جاتی ہے اور مرنے والے کو جینے کی وجہ وہ زندگی کے ہر میدان میں انسان کو سمجھانے اور سیکھانے کیلئے طرح طرح کی جنگوں کا سلسلہ شروع کر دیتا ہے۔ اسے دکھ، درد، تکالیف اور آزمائشوں سے گزار کر تیار کرتا ہے اور پھر مکمل تیاری کے بعد کچھ بڑا، منفرد اور خوب صورت مقام عطاء کر دیتا ہے۔ ہم نادان لوگ اس کی خدائی کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ اس نے مجھے تم سے ملوانا تھا لیکن تمہارے زریعے سے وہ میری ملاقات واصف علی واصف صاحب اور اشفاق احمد صاحب سے کروانا چاہتا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ میں عشق و محبت کے تمام مراحل سے گزر کر ٹوٹ جاؤں۔
پھر وہ مجھے اس طرح جوڑ دے کہ پھر کوئی فانی خواہش مجھے توڑنے کی جرآت نہ کرے۔ اس نے زندگی کے بارہ سال ضائع نہیں ہونے دیئے بلکہ وہ مجھے عشق میں ٹوٹے نوجوانوں کے زخم کا مرہم بنانا چاہتا تھا۔ تمہارے بعد میں نے خود کو ہی نہیں بلکہ کئی نوجوانوں کو عشق کے قبرستان میں زندہ لاش بن کر دفن ہونے سے بچایا ہے۔ ہاں شاید بلکہ یقیناً یہی وہ وجہ اور مقصد تھا جس کی خاطر وہ رب مجھے تیار کر رہا تھا۔ پہلے پہل یہ سوچ جنم لیتی تھی کہ بارہ سال کا عرصہ کیوں آخر؟
وہ بہت پہلے بھی تو ہمارے راستے جدا کر سکتا تھا؟ اب یہ راز بھی کھل گیا کہ جب نوجوان آ کر اپنے دو، تین یا پانچ سالہ عشق کے بعد بچھڑنے کا دکھ بیان کرتے ہیں تو سوچتا ہوں نہر کو سیراب کرنے کیلئے دریا ہونا ضروری ہے۔ میری جوانی کے بارہ سال بھی اس رب نے دریا بنانے میں لگا دیئے تاکہ میں ان نہروں کی خشکی دور کرنے کی قابلیت حاصل کر لوں یعنی ان نوجوانوں کی زندگی بدل دوں۔
عشق کا سفر کبھی رائیگاں نہیں جائے گا اور محبت کرنے والے دل کبھی نفرت نہیں کرتے، محبت کی پہلی سیڑھی انسانوں سے محبت ہے اور وہ پاک رب العالمین اپنے بندے کو بالآخر ایک دن اس پہلی سیڑھی پر لا کھڑا کرتا ہے۔ محبت روح کا سکون ہے۔ محبت جینے کی وجہ ہے یہ امید کا چراغ روشن کرتی ہے۔ یہ آگے بڑھنے کا جذبہ پیدا کرتی ہے اور نکمے کو قابل بنانے کی اہلیت صرف محبت کے پاس ہے۔
یہ جو اپنی جگہ بنا لے تو سب سے پہلے انسان کو خود سے محبت کرنے کا درس دیتی ہے کیوں کہ جو خود سے محبت کرتے ہیں وہی محبت بانٹ سکتے ہیں۔ یہ دنیا ہے یہاں تمہارے اور میرے جیسے کئی لوگ ایک دوسرے سے بچھڑ جاتے ہیں مگر محبت دل میں موجود رہتی ہے۔ چہرے بدل جاتے ہیں انسان بدل جاتے ہیں مگر محبت قائم رہتی ہے کیوں کہ زندا دل وہی ہوتے ہیں جن کے دلوں میں محبت کا بسیرا ہو پھر وہ کسی اور کیلئے ہو، اپنے لیے ہو یا پھر خدا کیلئے۔
میں نے بہت سی جگہوں پر پڑھا کہ" ہر انسان کو اپنی زندگی میں ایک بار محبت ضرور کرنی چاہیے تاکہ وہ جان لے کہ محبت کیوں نہیں کرنی چاہیے؟ مگر مجھے اس بات سے اختلاف ہے، میں نے اپنی زندگی میں محبت کرنے کے بعد سوچا کہ" ہر انسان کو اپنی زندگی میں ایک بار محبت ضرور کرنی چاہیے تاکہ وہ جان جائے کہ محبت کیوں کرنی چاہیے؟ تم سے محبت نہ کرتا تو کسی ایک حرف کی ولدیت میں " وسیم قریشی" کا نام درج نہ ہوتا اور یہ دو ہزار سے زائد آرٹیکلز کی ولدیت میں میرا نام عشق کی مرہونِ منت ہی تو ہے، کئی افسانے اور کہانیاں آج میرے نام سے منسوب ہیں۔
چھوٹے ظرف کا مالک اور کمزور انسان کبھی محبت نہیں کر سکتا، محبت کیلئے مضبوط اعصاب کا مالک ہونا ضروری ہے۔ یہ جو ملنگ بن جاتے ہیں، خود پر تشدد کرتے ہیں یہ لوگ دراصل چھوٹے ظرف والے کمزور انسان ہیں۔ یہی محبت کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں ورنہ محبت تو ایک انمول جذبہ ہے، ایک قیمتی تحفہ ہے، یہ حاصل کرنے کی کوشش کا نام ضرور ہے لیکن لاحاصل ہونے پر خود کو تباہ کر لینا ہرگز محبت نہیں ہے۔ تم سے محبت کرنا میری زندگی کا ایک مثبت پہلو تھا اور یہ عشق مجھے لمحہ بہ لمحہ آگے بڑھنے کا سبب بنتا رہا ہے۔