Jitna Bara Maqam Utna Bara Imtehan
جتنا بڑا مقام اتنا بڑا امتحان
کبھی کبھی ایسا لگتا ہے جیسے آپ ایک مشکل سے گزرتے ہیں تو دوسری، تیسری اور چوتھی مشکل پہلے سے آپ کی منتظر ہوتی ہے۔ ہر اگلی مشکل گزشتہ سے زیادہ مضبوط اور مستحکم ہوتی ہے۔ زندگی ایک جنگ ہے جہاں آپ کو پیدائش سے لے کر موت تک مسلسل لڑنا پڑتا ہے۔ ایک ایسی جنگ کہ آپ زخمی ہونے کے باوجود بھی آرام نہیں کر سکتے۔ اس جنگ میں قاتل بھی آپ مقتول بھی، فاتح بھی آپ ہوتے ہیں اور مفتوح بھی آپ ہی ہوتے ہیں۔
کبھی ایسا لگتا ہے جیسے ہم کسی وزنی پتھر نہیں بلکہ پہاڑ کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔ ہمارے کاندھوں پر جوک در جوک وزنی پتھر گرتے جا رہے ہیں۔ ہم ابھی ایک کو ہٹا کر سستانے کی کوشش کرتے ہیں کہ دوسرا گر جاتا ہے اور پہاڑ تو مسلسل ہمارے اوپر سوار ہے۔ یہ پہاڑ کئی طرح کے پتھروں پر مشتمل ہے۔ یہ مشکلات، پریشانیاں، تکالیف اور ذمے داریوں پر مشتمل پتھروں سے تعمیر شدہ پہاڑ ہے۔
میں سوچتا ہوں کہ بددیانت اور بےایمان کیلئے یہ دنیا یہ زندگی اتنا بڑا امتحان یا میدانِ جنگ نہیں ہے جتنا بڑا امتحان یہ ایماندار اور مخلص لوگوں کے لیے ہے۔ صاف نیت سے چلنے والوں کیلئے یہ سفر انتہائی کٹھن ہے۔ ان لوگوں کے لیے راہ میں چاروں طرف رکاوٹیں کھڑی ہیں۔ ہر جانب مشکلیں جنگلی شیر کی طرح منہ کھولے ان لوگوں کا شکار کرتی نظر آتی ہیں۔ تکالیف ان کے لیے ایسے سمندری طوفان کی مانند ہیں جو یکے بعد دیگرے مختلف روپ دھار کر سامنے آتا ہے۔ یہ زندگی اچھے لوگوں کے لیے کڑی آزمائش ہے۔
میں نے جب سے اس سفر میں چلنا شروع کیا ہے تب سے آج تک روز ایک نئی مشکل مزید شدت سے میری منتظر رہتی ہے۔ آسانیاں تقسیم کرنے کے اس سفر کا جائزہ لوں تو کہہ سکتا ہوں کہ میں نے اپنی 29 سالہ زندگی میں اتنی تکالیف، مشکلات اور پریشانیاں نہیں دیکھی تھیں جو ان آٹھ مہینوں میں دیکھی ہیں، نظر انداز کی ہیں، برداشت کی ہیں یا کہہ لیجیے ڈٹ کر ان کا مقابلہ کیا ہے ثابت قدم رہا ہوں۔ لیکن کبھی کبھی سوچتا ہوں کیا اب زندگی آخری سانس تک اسی طرح چلتی رہے گی؟
شاید بلکہ یقیناً۔ کبھی لگتا ہے کہ زندگی کسی ڈائنا سور کے خیال جیسی ہے جو نہ بھی ہو تو اس کی صرف سوچ ہی آپ کو خوف زدہ کیے رکھتی ہے۔ آٹھ ماہ پہلے شاید ایک بے فکری کی زندگی جی رہا تھا جہاں چاروں طرف سہولیات کا بسیرہ تھا ذمے داریوں سے سبکدوش تھا۔ ماں کا لاڈلا اور باپ کا بگڑا بیٹا تھا۔ جسے دنیا کی کسی بھی پریشانی کا کوئی خوف تک نہیں تھا۔ جو لاپرواہ تھا خوش مزاج تھا اپنی زندگی اپنے مطابق جیتا تھا۔
کبھی کبھی تھکنے لگتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ جتنا بڑا مقام اتنا بڑا امتحان تو ہوتا ہی ہے۔ جتنی زیادہ برداشت جتنی بڑی قربانی اتنا بڑا اجر بھی تو ملے گا۔ سوچتا ہوں کہ جب اللہ تعالٰی انسان پر اس کی برداشت سے زیادہ بوجھ ہی نہیں ڈالتا تو صاف ظاہر ہے اللہ جانتا ہے میں کتنا برداشت کر سکتا ہوں۔ اس کے باوجود وہ بوجھ ڈال رہا ہے تو ظاہری سی بات ہے کہ اس نے مجھے قوت اور ہمت بھی اتنی ہی عطاء کی ہے تو میں خود کو کمزور سمجھنے کی غلطی کیوں کروں؟
اس کے بعد مسکرا دیتا ہوں۔ کمر کس لیتا ہوں اور پھر سے نئے عزائم لیے اپنے سفر پر روانہ ہو جاتا ہوں اور ذہن نشین کر لیتا ہوں کہ مزید امتحان نئی مشکلات اور نئے مقاصد میرے منتظر ہیں۔