Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Wasim Qureshi
  4. Hum Nahi, Tum Hamare Sath Shamil Ho Jao

Hum Nahi, Tum Hamare Sath Shamil Ho Jao

ہم نہیں، تم ہمارے ساتھ شامل ہو جاؤ

پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ، اب اگر کوئی غریب بچت بھی کرے تو کیا کر سکتا ہے؟ وہ بائیک کا استعمال کم کر دے گا۔ صبح سویرے اپنی روزی کے لیے منڈی سے سبزیاں، دودھ، دہی، راشن اور دوسرا سامان لے کر آنے والے لوگ پیدل چلے جائیں گے۔ چلیں مزید یہ کہ وہ پیدل ہی تین چار چکر لگا کر سارا سامان بھی اپنی پیٹھ پر لاد کر گھر تک لے آئیں گے تاکہ بائیک کا استعمال نہ ہو اور کسی رکشے والے کی ضرورت بھی نہ پڑے۔

اب وہ ساٹھ ستر سالہ بوڑھے کہاں جائیں گے جو نہ تو پیدل جا سکتے ہیں اور نہ ہی پیٹھ پر سامان لاد کر گھر آ سکتے ہیں؟ چلیں ان بوڑھے مظلوم لوگوں کو بھی یہ نصیحت کرتے ہیں کہ ایسا کرنے کی کوشش کریں تاکہ اس کوشش میں ہی مارے جائیں ورنہ مہنگائی تو مارے گی صاحب۔

آٹھ سے دس ہزار روپے تنخواہ لینے والے پرائیویٹ سکول ٹیچر اور امام مسجد؟ تنخواہ کا نصف سے زائد حصہّ آنے جانے کیلئے پیٹرول پر خرچ ہو گا اور جو نصف باقی بچے گا اس سے تو بجلی کا بل بھی مشکل سے ادا ہو گا۔ نہ پرائیویٹ سکول ان کی تنخواہ میں اضافہ کریں گے ہاں البتہ بچوں کی فیس میں اضافہ یقینی ہے۔ قاری صاحب کی تنخواہ پانچ سو یا ایک ہزار روپے بڑھا کر اسے اعتدال اور میانہ روی کا چونا بھی ساتھ دیا جاوے گا۔

چلیں کپڑوں کی خریداری اور جوتوں کو چھوڑ دیں۔ پھٹے پرانے کپڑے اور جوتے بہتر رہیں گے مگر کھانے میں ٹماٹر کی چٹنی اور گندم کی روٹی بھی کہاں سے آئیں گے؟ بچوں کی تعلیم؟ یہ بھی چھوڑ دیجیے کیوں کہ میری نظر میں ہمارے ملک میں تعلیم کو مہنگا ہی اس وجہ سے کیا گیا ہے کہ غریب کا بچہ اسے حاصل نہ کر سکے اور کر بھی لے تو کون سا تیر مار لے گا؟ ایم اے کرنے کے بعد چپڑاسی کی نوکری کیلئے چھ لاکھ کا انتظام کہاں سے ہو گا؟

اس سب کے باوجود بھی آنے والے بجلی کا بل کسی زلزلے کی مانند ان کے سارے بجٹ کی ماں بہن ایک کر دے گا۔ اب اگر گھر بھی کرایہ کا ہے تو پھر انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ اب کوئی یہاں بھی اعتدال اور میانہ روی کا چورن فروخت نہ کرے کیوں کہ پہلے ہی بجلی کی قیمتیں اتنی زیادہ تھیں کہ ہمارے گھروں میں بھی تین تین بجلی کے میٹر ہونے کے باوجود ابو کی طرف سے روک ٹوک کی جاتی تھی کہ کسی بھی میٹر میں تین سو یونٹ سے زیادہ نہ ہو جائیں۔

ان قیمتوں نے اچھے خاصے لوگوں کی بھی بینڈ بجا رکھی تھی تو ایک لوئر کلاس دیہاڑی دار طبقے کی حالت کیا ہو گی؟ اب اگر تین سو یونٹ کی حد میں کمی کا سوچا جا رہا ہے اور قیمتیں آسمان کو چھو نہیں رہیں بلکہ کراس کر چکی ہیں تو کیا ہو گا؟ پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ہر بڑی چیز سے لے کر ماچس کی تیلیوں تک میں اضافہ ہو جاتا ہے تو یہ لوگ پھر بھی مارے ہی جائیں گے۔

اب یہ جو اشرافیہ دراصل اس ملک کے باسیوں کا خون چوس رہی ہے انہیں اپنے سر پر پتھر مار کر اپنا خون بہانے کی اشد ضرورت ہے۔ ایوانوں میں اور دفاتر میں جو سرخ رنگ کے قالین ہیں جن میں رنگ غریب کے خون سے بھرا گیا ہے اور پھر اس خون کو خشک ہونے کی بھی اجازت نہیں ہے یعنی قالین کو بھی خراب ہونے سے پہلے ہی تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ یہ جو ہر مہینے کئی لیٹر پیٹرول آفیشل کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور اس کا بڑا حصہ ان کے بیوی بچوں اور رشتے داروں کی پکنک پارٹیوں میں خرچ ہوتا ہے۔

خالی پیلی گاڑیاں اور جہاز یہاں سے وہاں حرکت کرتے رہتے ہیں۔ پاکستانی جھنڈا لہرائے یہ گاڑیاں دھوئیں کی مد میں غریب کا خون پسینہ بہائے جا رہی ہیں اور یہ سینکڑوں بجلی کے یونٹ مفت میں لے کر دن رات ٹھنڈی ہوائیں لینے والے نہ تو اپنا کام ڈھنگ سے کرتے ہیں نہ ملک بچاؤ مہم میں ان کا کوئی نام آتا ہے۔ آخر کیوں؟ بنانے والے نے تو چائے پیش کرنے سے بھی منع کیا تھا۔ اپنی بہن فاطمہ جناح کے سامان کی ادائیگی ملکی خزانے سے نہیں بلکہ فاطمہ جناح کے ذاتی اکاؤنٹ سے کرنے کا حکم لاگو تھا۔ تو تم لوگ کون ہو؟

اگر تو اس ملک کے باشندے تم بھی ہو

اگر اس چمن کے پرندے تم بھی ہو

اگر تم بھی اس مٹی کے وفادار ہو

تو تم بھی تو مہنگائی کے ذمہ دار ہو

اس بار ہم نے تمہارے ساتھ نہیں بلکہ تمہیں ہمارے ساتھ شامل ہو کر ملک بچانے کی ضرورت ہے۔

آؤ ہمارے ساتھ شامل ہو جاؤ۔ ملک بچاؤ۔

Check Also

Baat Kahan Se Kahan Pohanch Gayi, Toba

By Farnood Alam