Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Wasim Qureshi
  4. Hamari Universities Ghanchakkar Hain

Hamari Universities Ghanchakkar Hain

ہماری یونیورسٹیاں گھن چکر ہیں

یونیورسٹی میں ایک سٹوڈنٹ کا نتیجہ یا مستقبل پروفیسر صاحب کے ہاتھ میں ہوتا ہے وہ اگر ایماندار نہیں تو جب چاہے جس مرضی سٹوڈنٹ کی واٹ لگا سکتا ہے۔ کئی بار دیکھا کہ جو پروفیسر دو نمبر سے کسی سٹوڈنٹ کو فیل کرتے وقت یہ دلیل دیتے تھے کہ" میں اپنے فرائض کے ساتھ کبھی بد دیانتی نہیں کرتا"، یہی پروفیسر کسی بڑی سفارش پر، کسی جاننے والے کو یا کسی بھی مفاد پرستی کی وجہ سے ڈی گریڈ سے اٹھا کر بی یا اے گریڈ تک پہنچا دیتے تھے۔ ان گناہ گار آنکھوں سے دیکھا کہ صبح لسٹ میں جس لڑکی کا سی گریڈ ہوتا تھا وہ لسٹ شام کو تبدیل کر دی جاتی تھی اور یوں سی گریڈ سے اٹھا کر اس لڑکی کو اے گریڈ پر پہنچا دیا جاتا تھا۔۔

آپ کے ساتھ اگر کوئی ذاتی اختلاف ہو تو پروفیسر آسانی سے آپ کو لٹکا سکتا ہے۔ ان کے چیک شدہ پیپر کو آپ چیلنج بھی نہیں کر سکتے اور اگر کریں گے تو آپ کی جان پر بن آئے گی۔ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم معیار نہیں تعداد پیدا کر رہے ہیں۔ ہماری توجہ کا مرکز کوالٹی نہیں کوانٹیٹی ہے۔ مارننگ اور ایوننگ شفٹ میں طلباء کی بڑی تعداد، ریسرچ ورک، سائناپسز اور تھیسز وغیرہ وغیرہ۔

ایک ہی پروفیسر ہر جگہ الجھا ہوا ہے اور نتیجتاً طلباء کے پیپر سینئر چیک کرتے ہیں۔ ایم ایس سی والوں کے پیپر ایم فل والے وہ طلباء جو پروفیسر صاحب کی سپروین میں ہیں ان کے ہاتھوں چیک ہو رہے ہیں۔ کیسی عجیب بات ہے کہ یونیورسٹی میں پہنچ کر بھی یہ رٹا سسٹم ہماری جان نہیں چھوڑتا۔ وہاں بھی آپ کو جوں کا توں کتاب اور نوٹس والا مواد ہی لکھنا پڑے گا۔ کیوں کہ پیپر چیک کرنے والے سینیئرز کے پاس ایک صفحہ موجود ہے اور وہ اسی کے مطابق آپ کے پیپر کو ٹک ٹوک کر رہے ہیں۔ میں نے تو کچھ پروفیسرز کو بھی اسی طرح پیج سامنے رکھ کر پیپر چیک کرتے دیکھا۔

یونیورسٹی میں ایک لفظ" ٹی سی" بڑا مشہور ہے۔ اکثر لڑکے ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ تمہیں ٹی سی کرنے آتی ہے؟ اگر نہیں تو پھر برداشت کرو۔ اس لفظ کا مطلب یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے والے یا فارغ التحصیل طلباء بخوبی جانتے ہیں۔ ہماری ایک سینیئر تھیں جن کے مطابق ڈگری دو سال سے لٹکی ہوئی ہے۔ بہت دنوں بعد پوچھا کہ آپی اس کی کیا وجہ ہے؟

وسیم بھائی آپ ابھی نئے ہیں آہستہ آہستہ آپ کو ساری وجوہات سمجھ آ جائیں گی۔ وجہ یہ تھی کہ پروفیسر صاحب جو اس آپی کے سپر وائزر تھے انہوں نے ان کی ڈیمانڈ پوری نہیں کی اور پروفیسر صاحب نے اعتراض لگا لگا کر لٹکا دیا کہ تنگ آ کر خود ہی مان جائے گی مگر وہ پکی خاندانی تھیں کہتی تھیں " یہ ڈگری میرے لیے میری عزت سے زیادہ قیمتی نہیں ہے۔ آج نہیں تو کل ڈگری مل ہی جائے گی نہ بھی ملی تو ڈگری کے پیچھے اپنی عزت کبھی نہیں بیچوں گی"۔

اب بات یہ بھی نہیں ہے کہ صرف یہی خرافات ہیں۔ ان کانوں سے دو لڑکیوں کے درمیان ہونے والے مکالمے میں یہ جملہ بھی سن چکا ہوں " تو کیا ہوا یار؟ اس عمر میں پروفیسر صاحب آنکھیں ٹھنڈی کرنے کے سوا اور کر بھی کیا سکتے ہیں؟ دو چار منٹ باتوں کے چسکے ہی لینے ہیں مگر فائدہ تو ہوگا نا"۔۔ یہ اس لیے بتا رہا ہوں کہ صرف پروفیسر نہیں یہ والے اٹیک بھی ہوتے ہیں۔ کچھ پروفیسر صاحبان کے مطابق یہ تو ان کا بس نہیں چلتا ورنہ کچھ لڑکیاں کچھ مارکس کے لیے گود میں بیٹھ جائیں"۔۔

ایک ادارے کے پرنسپل صاحب کہنے لگے" وسیم بھائی۔۔ ہمارے لیے بھی بڑی مشکلات ہیں۔ کسی جگہ ادارے کا سربراہ مگر ہر جگہ صرف ادارے کے سربراہ ہی غلط نہیں ہوتے۔ آپ یقین کریں کہ ہیڈ ٹیچر کی کرسی پر پہنچنے کے لیے وہ وہ طریقے اپنائے جاتے ہیں کہ بس اللہ ہی معاف کرے۔ یہاں خود کو بچا کر رکھنا بھی مشکل کام ہے۔ البتہ بہت اچھی ٹیچرز بھی ہیں جو اپنے کام سے کام رکھتی ہیں اور اپنی عزت کے ساتھ ساتھ اپنے نسب اور خاندان کا لہاظ بھی کرتی ہیں"۔

اب تمام پروفیسر بھی ایسے نہیں ہیں کیوں کہ سب کو اسی فہرست میں شامل کرنا ان لوگوں کے ساتھ زیادتی ہوگی جو واقعی اپنے کام کے ساتھ سنجیدہ ہیں۔ جو لڑکیوں اور لڑکوں سب کیلئے ایک جیسا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ جو واقعی اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کی طرح نظر رکھتے ہوئے روحانی باپ ہونے کا کردار ادا کرتے ہیں مگر افسوس کہ ان کی تعداد کم ہے۔

اسی طرح لڑکیاں بھی ہر طرح کی پائی جاتی ہیں۔ بہت سی لڑکیوں کو دیکھ کر خوشی ہوتی تھی کہ یونیورسٹی میں آنے کے بعد بھی انہوں نے اپنی عزت کو محفوظ رکھا ہے۔ جو سی آر کے ساتھ بھی اپنا نمبر مشکل سے شیئر کرتی تھیں۔ کرتی بھی ہیں تو اپنی حد اچھی طرح سے جانتی ہیں۔ اپنی حد میں رہتے ہوئے تمام سرگرمیوں میں حصہ لیتی تھیں۔

لڑکوں اور لڑکیوں کے باہمی خرافات اور مسائل سے تو آپ سب بخوبی واقف ہیں۔۔

مجھے نہیں معلوم کہ جس طرح بورڈ کا ایک نظام ہوتا ہے اس طرح یونیورسٹی میں ممکن ہے یا نہیں؟ یا کم از کم رول نمبر یا نام کی جگہ پر مصنوعی رول نمبر تو ممکن ہے؟ وہ بھی اگر ڈیپارٹمنٹ کے اختیارات سے باہر ہو تو ورنہ تب بھی کوئی فائدہ نہیں ہے۔۔

کوئی بھی دوسرا حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔۔ ممکن ہے یا نہیں میں نہیں جانتا مگر اتنا ضرور جانتا ہوں کہ ناممکن نہیں ہے البتہ کسی بھی حل کو ممکن بنانے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہم خود یا پھر اس فیلڈ کے لوگ ہیں۔۔

Check Also

Pakistani Ki Insaniyat

By Mubashir Aziz