Dua Zahra
دعا زہرا
دعا زہرا کی میڈیکل رپورٹس اس کے سولہ سے سترہ سالہ ہونے کی تصدیق کر چکی ہیں۔ والدین کے مطابق ان کا نکاح 2005 میں ہوا تھا۔ اب تک کے تمام پہلو ظہیر احمد اور اس کے والدین کے حق میں ہیں۔ کچھ لوگ ابھی تک اس بات پر بضد ہیں، کہ یہ معاملہ بڑے پیمانے پر اغواء کا ہے۔ جب کہ مجھے اب ایسا لگ رہا ہے جیسے اس معاملے کو اب مسلک کا رنگ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
مجسٹریٹ، پولیس افسران اور عدالتوں کے سامنے دعا اپنا بیان ریکارڈ کروا چکی ہے، تو کیا کسی ایک جگہ بھی اسے یہ سہولت نظر نہیں آئی ہوگی کہ اگر وہ کسی مشکل میں ہے تو کسی کے سامنے پھٹ پڑے اور سب سچ بتا دے؟ کیا تمام ججز، مجسٹریٹ اور پولیس افسران نے بھی بیان لیتے وقت دعا سے کہا ہوگا کہ یہ والا بیان دیں ورنہ آپ کے والدین کو مار دیا جائے گا؟
اگر ایسا ہے تو اس کا مطلب ہے، کہ ہماری عدالتیں اور تمام ادارے اسی اغواء گینگ کا حصہ ہیں؟ سندھ ہائی کورٹ دعا کے والد کی خواہش تھی وہ بھی پوری کر دی گئی؟ اب وہ سندھ ہائی کورٹ میں بھی اپنا بیان دے چکی ہے۔ تنہائی میں دیئے گئے بیان تو کیسے ممکن ہے کہ وہ؟
کچھ لوگ اس بات پر جذباتی ہو رہے ہیں، کہ دعا کے والدین کی حالت دیکھی نہیں جاتی، دعا کی والدہ کے آنسو اور کیفیت دیکھ کر افسوس ہوتا ہے۔ دعا کی والدہ والی ویڈیو دیکھ چکا ہوں ایک ماں کے جذبات اور محبت سے کون انکاری ہے؟ والدین کی تکلیف کو کوئی اور نہیں سمجھ سکتا لیکن ان کیفیات پر فیصلے ہو سکتے ہیں؟
میں نے واضح الفاظ میں کہا کہ اگر تو کچھ بھی غلط ہو رہا ہے، تو اللہ کرے بچی جلد اپنے والدین تک پہنچے اور مجرم کیفر کردار تک۔ لیکن اگر کوئی جرم نہیں ہوا تو پھر ان کی زندگی کو اب عذاب نہ بنایا جائے۔ اگر موجودہ حالات کے مطابق آپ کو لگتا ہے، کہ یہ اغواء کا معاملہ ہے تو موجودہ حالات واضح طور پر یہ رخ بھی پیش کر رہے ہیں، کہ اس کیس کو مسلک کی بنیاد پر حد سے زیادہ اچھالا جا رہا ہے۔
آپ اگر تمام عدالتوں اور اداروں کو اس کیس میں ملوث پا رہے ہیں۔ تو موجودہ حالات اس جانب بھی اشارہ کرتے ہیں، کہ اس کیس کو ہائی سٹینڈر بنا کر ہر طرح سے صاف کیا جا رہا ہے، تاکہ اسے مسلک کی بنیاد بنا کر کوئی اور رخ نہ دیا جائے اسی وجہ سے یہ ایک ہائی پروفائل کیس بنایا گیا ہے۔ جسے تمام پہلوؤں سے پرکھا جا رہا ہے۔ اس کے باوجود والدین بضد ہیں اور اپنی بات پر قائم ہیں۔ والدین کی کیفیت اور دکھ ہم سب سمجھ سکتے ہیں۔
لیکن ڈیڑھ سال کی دوستی اور رابطے تھے یہ کوئی ایک دن کی بات نہیں تھی۔ میں بارہا کہہ چکا ہوں کہ آج کل پندرہ سالہ بچے یا بچی کو تیس سالہ تصور کیا کریں۔ ان کی ذہنی سطح اپنی عمر سے بہت زیادہ ہے۔ جو کچھ آپ لوگ تیس سال کی عمر میں اور اپنی شادی کے بعد بھی نہیں جانتے تھے۔ آج کے بچے وہ سب پندرہ سال کی عمر میں جان چکے ہیں۔ اس سطح کو تسلیم کیجیے اور بگاڑ کو سدھارنے پر توجہ دیں۔
کچھ لوگوں کے مطابق دعا کے چہرے پر خوشی نمایاں کیوں نہیں ہے؟ اگر اپنی پسند اور مرضی سے اس نے ظہیر احمد سے شادی کی ہے تو وہ خوش کیوں نہیں ہے؟
پہلے دن سے ہی چھپن چھپائی کا کھیل جاری ہے۔ آئے دن کئی چکر تھانے کچہری کے لگتے ہیں۔ کبھی پولیس کبھی میڈیا کبھی وکیل کبھی ججز، کبھی گرفتاری کا خوف، کبھی بچھڑ جانے کا ڈر۔ اور پھر ایسے موقع پر گھر کے بڑے اور رشتے دار بچوں پر شروع ہو جاتے ہیں کہ ان کی وجہ سے رسوائی، ذلت اور مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس سب کے باوجود آپ ان کے چہروں پر خوشی اور مسکراہٹ دیکھنا چاہتے ہیں؟
پھر تو حیرت ہے بھئی۔
آخر میں پھر کہوں گا کہ اللہ نہ کرے یہ کسی گینگ کا معاملہ ہو، اگر ایسا ہے۔ تو میں کئی بار یہ دعائیں کر چکا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس بچی کو خیر و عافیت سے اپنے والدین تک پہنچا دے اور اسے ہر طرح کی آفت سے محفوظ رکھے آمین۔ سچ جو بھی ہے وہ سامنے آنا چاہیے مگر جذباتی ہو کر بات کرنے سے گریز کریں۔
اللہ تعالیٰ تمام بیٹیوں کو اپنی حفظ و امان میں رکھے آمین۔