Degree, Skills, Tajurba Aur Business (2)
ڈگری، سکلز، تجربہ اور بزنس( 2 )
مجھے ان طلباء پر بے حد افسوس ہوتا ہے جو سب کچھ جانتے ہوئے بھی اپنی توجہ کا مرکز صرف اور صرف ڈگری کو بنائے ہوئے ہیں۔ صرف یونیورسٹی کلاسز کے چند گھنٹے اور باقی سارا وقت ضائع کر دیتے ہیں۔ ہمارے فلیٹ پر دو لڑکے رہتے تھے جو بی ایس تھرڈ سمسٹر کے طالب علم تھے لیکن وہ اپنا ایک آن لائن بزنس چلا رہے تھے۔ کپڑے، گھڑیاں، جیولری، جوتے اور مختلف اشیاء آن لائن فروخت کر رہے تھے۔
حیرت کی بات تھی کیوں کہ اس عمر میں کم نوجوان ہی اس جانب توجہ دیتے ہیں ورنہ زیادہ تر والدین کے کاندھوں پر بوجھ ہی بنے رہتے ہیں۔ کئی والدین بچوں کے تعلیمی اخراجات برداشت نہیں کر سکتے لیکن وہ اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ والدین کو لگتا ہے بچہ سارا دن تو پڑھائی میں مصروف رہتا ہے اس کے پاس تو وقت ہی نہیں ہوتا جب کہ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان کتنے اور کہاں مصروف رہتے ہیں یہ بات وہ خود اچھی طرح جانتے ہیں۔
یہ دونوں لڑکے غریب گھروں سے تعلق رکھتے تھے لیکن سلام ہے ان کی عظمت کو، وہ اپنے تمام اخراجات بھی خود برداشت کر رہے تھے اور باقاعدہ اپنے والدین کو بھی ہر ماہ پیسے بھیج رہے تھے۔ ان کا رہن سہن بھی اچھا تھا یہ لائف سٹائل انہوں نے خود اپنی محنت سے بنایا تھا۔ وہ تھرڈ سمسٹر میں تھے مگر دونوں تقریباً ایک لاکھ روپے ماہانہ کما رہے تھے۔
میں نے ان سے پوچھا کہ آپ لوگوں نے یہ کام کیسے شروع کیا تھا؟ یقیناً آپ لوگوں کے پاس وسائل ہوں گے؟ انویسٹمنٹ ہوگی؟
" وسیم بھائی۔ ہم نے جب یہ کام شروع کیا تو ہمارے پاس تو پروڈکٹ خریدنے کے پیسے بھی نہیں ہوتے تھے۔ ہم دونوں فیصل آباد کی مارکیٹ چلے جاتے۔ وہاں اچھی اچھی پروڈکٹس کی تصاویر بنا کر، ایڈیٹنگ کرنے کے بعد اپنے فیس بک پیج پر لگا دیا کرتے تھے اس کے علاوہ اپنے وٹس ایپ وغیرہ پر۔ جب ہمارے پاس آرڈر آتا تھا تو کسی دوست سے پیسے پکڑ کر یا پھر دوکاندار کی منت سماجت کے بعد اس سے پروڈکٹ لے لیتے یا کبھی اپنا شناختی کارڈ بطور امانت رکھا کرتے کہ پروڈکٹ کے پیسے دے کر واپس لے جائیں گے۔ اس طرح ہم نے پورا ایک سال محنت کی اور اللہ تعالیٰ نے محنت کا نتیجہ دیا۔ "
جب یہ لوگ پانچویں سمسٹر میں تھے تب ان دونوں کے پاس اپنی اپنی بائیکس تھیں۔ ایک الگ فلیٹ کرایہ پر لے کر رہ رہے تھے۔ مارکیٹ میں ایک دکان لے کر وہاں اپنا سٹاک رکھا ہوا تھا۔ پیچھے ایک چھوٹا سا سٹوڈیو بنایا ہوا تھا۔ ڈی ایس ایل آر بھی اب ان کے پاس تھا۔ اب سٹاک بھی ان کا اپنا اور اب یہ ڈائریکٹ کمپنی یا فیکٹری سے لین دین کر رہے تھے۔
ان دونوں میں سے ایک لڑکے کا یونیورسٹی میں جھگڑا ہوا۔ انکوائری لگی اور وہ ہر تیسرے دن انکوائری پینل کا سامنا کر رہا تھا۔ اس کے ساتھ رہنے والے پریشان تھے کہ یونیورسٹی اسے ایکسپیل نہ کر دے مگر وہ ہنستے ہوئے انکوائری کیلئے جاتا تھا۔
ایک دن کہنے لگا" مجھے کوئی ٹینشن نہیں ہے کیوں کہ میں نے کون سا ڈگری کے بعد جاب کرنی ہے؟ ڈگری کے بعد جس تنخواہ کیلئے لوگ دھکے کھاتے ہیں یا جس تنخواہ کیلئے لوگ ڈگری کرتے ہیں اس سے کئی زیادہ تو میں ابھی سے کما رہا ہوں تو میرا مستقبل کون سا اس ڈگری کا محتاج ہے؟ ڈگری تو میں صرف اپنے شوق کی وجہ سے کر رہا ہوں"۔
بس یہ جو وقت آپ لوگ ڈگری کے دوران ضائع کر دیتے ہیں، اس وقت کا اگر بہترین استعمال کیا جائے تو آپ ڈگری مکمل ہونے سے پہلے ہی اس قابل ہو جائیں گے۔ پھر یہ بیروزگاری کا جن آپ کو خوف زدہ نہیں کرے گا۔
انتخاب آپ کا اپنا ہے۔