Boyfriend Girlfriend Culture
بوائے فرینڈ گرل فرینڈ کلچر
ہم کہاں کھڑے ہیں؟ ہم جدید دور کے تعلیم یافتہ نوجوان ہیں ہم جانتے ہیں کہ ہم نے کب کیا کرنا ہے؟ ہمیں معلوم ہے کہ ہماری سوچ بہت اونچی اور خواب بڑے ہیں۔ ہمارے سادہ، ان پڑھ اور چھوٹی سوچ کے والدین کیا جانیں کہ ہمارے دور کا تقاضا کیا ہے؟ ہم تو ان کی ہر بات کو یہ کہہ کر رد کر دیتے ہیں کہ بیچارے سادہ لوگ ہیں ہمیں جدید دور کی ترقی سے روکنا چاہتے ہیں۔۔
کل کئی ماؤں نے اس پریشانی کا اظہار کیا کہ ہماری بچیاں بھی اسی عمر کی ہیں۔ ماؤں کو دس سے پندرہ سالہ بچیوں کی فکر لاحق ہو گئی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ان کی پریشانی جائز ہے۔ کل میری والدہ نے جب یہ سب سنا تو میں باقاعدہ ان کی پریشانی کو صاف دیکھ سکتا تھا کہ آخر وہ بھی ایک بیٹی کی ماں ہیں۔
میرے سینے میں کئی باتیں دفن ہیں جو میں آپ لوگوں سے کرنا چاہتا ہوں وقتاً فوقتاً کرتا بھی ہوں لیکن پھر بھی بہت سی باتیں ہیں جنہیں لکھنے کی ہمت ہی نہیں کر پاتا۔ عورت کی عزت میرے دل میں اس قدر ہے کہ کسی بھی عورت کا منفی کردار قلم بند کرتے وقت میں الجھ جاتا ہوں۔ کئی لوگ کہہ جاتے ہیں آپ مردوں کے خلاف قلم اٹھاتے ہیں اور کئی خواتین یہ تہمت لگا دیتی ہیں کہ آپ خواتین کے منفی کردار پر من گھڑت کہانیاں لکھتے ہیں۔ من گھڑت کہانیاں؟ میں وہ شخص ہوں جو گھر سے باہر نہ نکلے اور مختلف لوگوں کی آپ بیتی نہ سنے تو لکھنا مشکل کام ہے۔۔
آپ ماں ہیں؟ آپ کی پریشانی جائز ہے اور آپ کا ڈر بھی جائز ہے کیوں کہ حالات آپ کے سامنے ہیں مگر ایک بات کہوں؟ ماں وہ ہستی ہے جو اپنی اولاد خاص طور پر بیٹی کے چہرے اور عادات سے بخوبی واقف ہوتی ہے۔ اسے معلوم ہوتا ہے کہ بیٹی کس راستے پر چل رہی ہے؟ وہ جان بوجھ کر آنکھیں بند کر لے یا نظر انداز کرے تو الگ بات ہے۔۔ ایک بڑی غلطی آپ مائیں یہ بھی کرتی ہیں کہ اپنے شوہر سے باتیں پوشیدہ رکھا کرتی ہیں کبھی ماں کی تربیت پر انگلی نہ اٹھائی جائے۔ باپ یہ غلطی کرتے ہیں کہ وہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی حل تلاش کرنے کی بجائے آگ بگولہ ہو جاتے ہیں۔ اسی رویے کی وجہ سے آپ کی بیوی جو بچوں کے بارے بہت کچھ جانتی ہے اسے آپ سے پوشیدہ رکھا جاتا ہے۔۔
میں نے سات ماہ گرلز ہاسٹل چلایا۔۔ ایک دن اڑتی ہوئی خبر میرے والدین کے کانوں تک جا پہنچی کہ ہاسٹل کی لڑکیاں لڑکوں کے ساتھ گھومتی ہیں۔ ان کے لڑکوں سے روابط ہوتے ہیں۔ یہ خبر ان کے لیے آگ کی طرح تھی اور انہوں نے فورآ سے اپنا فیصلہ سنایا کہ ہاسٹل کو بند کرو۔ میں نے سمجھانے کی کوشش کی یہ سب تو عام ہے نارمل ہے۔ آپ لوگوں نے یونیورسٹی کا ماحول تو پھر دیکھا ہی نہیں ہے اور ہاسٹل سے باہر لڑکی کہاں جاتی ہے کس کے ساتھ جاتی ہے اس سے ہمارا کوئی واسطہ نہیں ہے۔۔
مگر وہ سادہ لوگ چھوٹی سوچ کے مالک۔ انہوں نے کہا یہ سب نارمل یا عام سی بات کیسے ہو سکتی ہے؟ نہ جانے والیوں کو شرم ہے اور نہ لے کر جانے والوں کو؟ نہ لڑکی کو شرم ہے کہ وہ پگڑی روند کر جا رہی ہے اور نہ ان لڑکوں کو کہ وہ کسی کی عزت پامال کر رہے ہیں؟ یہ سب ہرگز نارمل نہیں ہو سکتا۔ ہاسٹل ختم کرو ورنہ اس طرح تو ہم بھی اس سب میں حصہ دار کہلائیں گے اور ہم سے بھی روز محشر سوال ہوگا۔۔
واقعی ان کے لیے یہ سب نارمل ہو بھی نہیں سکتا جو آج تک مجھے کہتے ہیں کہ تمہیں یونیورسٹی تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیجا تھا اور تم وہاں سے واپس آئے تو سگریٹ نوشی کے عادی ہو گئے؟ میں نے بتایا کہ آپ لوگوں کو اندازہ بھی نہیں ہے کہ یونیورسٹی میں سگریٹ تو نارمل ہے وہاں تو شراب، چرس اور دنیا جہان کے نشے عام ہیں۔ میں نے خود کو ان سب چیزوں سے بچا کر رکھا ہے مگر نہیں ان کی نظر میں سگریٹ نارمل نہیں تھی بل کہ مجھے اس طرح ڈیل کیا گیا جیسے میں شراب نوشی میں مبتلا ہوں۔۔ تو ایسے سادہ لوگوں کے لیے لڑکا لڑکی کا شادی کے بنا یوں تعلق قائم کرنا کیسے نارمل ہو سکتا ہے؟
آپ یقین کریں کہ ایک لڑکے تک بات محدود نہیں ہے۔ جس طرح لڑکے کئی لڑکیاں بدلتے ہیں ٹھیک اسی طرح کئی لڑکیاں بھی کئی لڑکے تبدیل کرتی ہیں۔ بیک وقت تین چار لڑکوں سے تعلق رکھنے والی لڑکیاں بھی بڑی تعداد میں دیکھی ہیں۔۔ البتہ آپ والدین اور بالخصوص خواتین کو یہ سب من گھڑت کہانیاں لگتی ہیں۔ آنکھیں بند کر لینے سے حقیقت نہیں بدل سکتی البتہ آپ اپنی نسلوں کو بچانے کی بجائے تباہ ضرور کر لیں گے۔ حقائق کو قبول کیجیے۔۔
ابھی بچی ہے ابھی بچہ ہے اس غلط فہمی سے باہر نکلیں۔ آنکھیں کھول کر دیکھیے کہ آپ کے بچے کہاں جاتے ہیں؟ کس سے ملتے ہیں؟ فون پر گفتگو کس سے کرتے ہیں؟ آپ یہ کہہ کر ٹال دیتے ہیں کہ ابھی بچے ہیں ابھی چھوٹے ہیں مگر چھوٹے کتنے بڑے ہیں یہ شاید آپ اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔۔ لڑکیوں کے معاملے میں کئی بار دیکھ چکا ہوں کہ خود بڑی بہنیں یا ماں غلطی پر سپورٹ کرتی ہیں۔ کچھ جگہوں پر لڑکی کی والدہ کو آگاہ کیا تو چھان بین کرنے کی بجائے جواب ملا" جی مجھے معلوم ہے۔ یہ ہمارا ذاتی مسئلہ ہے"۔ آپ کی لڑکی کئی لڑکوں یا کسی لڑکے سے تعلق قائم کر رہی ہے تو یہ نارمل ہے؟ جب تعلق بھی حدیں پار کرنے والا ہے؟ لیکن جب کبھی کہا گیا کہ والد یا بھائی کو آگاہ کیا جائے تو منت سماجت شروع ہو جاتی ہے کہ ایسا ہرگز نہ کیا جائے۔۔
سپورٹ کرنے سے آپ دوستی نبھا رہی ہیں یا دشمن بن رہی ہیں؟ فیصلہ خود کیجیے۔۔
کئی بار لکھ چکا ہوں کہ یونیورسٹی میں سب کچھ عام ہے۔ آپ جوس کارنر، پیزا شاپ، پارکس، شاپنگ مال یا ہوٹلوں کا وزٹ کر لیں تو آپ کی عقل دنگ رہ جائے گی۔ آپ کو ہوٹلوں میں بند کمروں میں کپل ہی ملیں گے غیر شادی شدہ کپل۔۔ بات صرف بات کرنے، دوستیاں کرنے یا فون کالز تک محدود رہنے سے بہت آگے نکل گئی ہے۔ آپ یہاں سے اندازہ کیجیے کہ یونیورسٹی میں اگر کسی کی کوئی گرل فرینڈ یا بوائے فرینڈ نہ ہو تو اسے پینڈو سمجھا جاتا ہے یا پھر ان کے لڑکا یا لڑکی ہونے پر شک کیا جاتا ہے۔۔
یونیورسٹی میں اپنے کام سے کام رکھنے والی لڑکیاں بھی بڑی تعداد میں دیکھی ہیں۔ یہاں تمام لڑکوں اور لڑکیوں کے کردار پر انگلی اٹھانا مقصد نہیں ہے۔ صرف کچھ حقائق سامنے رکھنا مقصد ہے کہ آپ والدین کو اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔۔
میں محتاط ہو کر لکھتا ہوں کہ خواتین کے لیے تعلیم کے راستے دشوار نہ ہو جائیں۔ غلطیاں تو دو طرفہ ہیں نا تو صرف لڑکیوں کو پابند کرنے سے کیا ہوگا؟ قصور وار تو لڑکے لڑکیاں دونوں ہی ہیں۔ نان پریگننسی کی ادویات ہوں یا اسقاط حمل یا پھر ٹائمنگ کی ادویات۔۔ کبھی میڈیکل سٹور والوں سے ڈیٹا تو اکٹھا کریں آپ کو سب معلوم ہو جائے گا۔۔
یونیورسٹی تو یونیورسٹی آپ کالج یا اکیڈمی کی کسی کلاس میں جا کر تحقیق کریں تو آپ کو معلوم ہوگا پوری کلاس تقسیم ہے۔ یہ تیری ہے یہ میری ہے یہ تیرا ہے یہ میرا ہے۔۔
آپ غور تو کریں۔۔ نہ ہم مردوں کی آنکھ میں حیا باقی ہے نہ عورتوں کے لباس میں، ۔۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں تعلیم کے علاوہ سب کچھ ہے۔ تمام وسائل اور سہولیات موجود ہیں سوائے تعلیم کے۔۔
ڈاکٹر اعجاز احمد بھٹی صاحب کہتے تھے" ایک معاشرے کی سکرین پر جس طرح کا مواد نشر کیا جائے گا یہاں کی نوجوان نسل اسی کے مطابق پروان چڑھتی ہے۔ ذہن سازی کے لیے ضروری ہے کہ سکرین پر ادبی شخصیات اور مثبت لوگ موجود ہوں۔۔ چاہے آپ کے معاشرے میں منفی پہلو موجود ہوں مگر سکرین پر مثبت مواد کے زریعے نوجوانوں کی ذہن سازی ضرور کی جائے"۔۔
اب ہماری سکرین پر کیا ہے؟ ڈرامے، ناول اور موویز۔۔ کیا ہماری سکرین اور تعلیمی ادارے بوائے فرینڈ گرل فرینڈ کلچر کو پروموٹ نہیں کر رہے؟ ناکام عاشق، محبوبہ، عشق محبت کے علاوہ کیا ہے ہماری سکرین پر؟ تو ہم تو چھوٹی عمر سے ہی بچوں کو عشق کے نام پر رگیں کاٹ لینا، محبوب کی خاطر کھانا پینا چھوڑ دینا ہی سیکھا رہے ہیں یا نہیں؟ ذرا اپنے پانچ سالہ بیٹے یا بیٹی سے پوچھ کر دیکھیں کہ کلاس میں کیا چل رہا ہے؟ وہاں بھی میری فرینڈ اور میرا فرینڈ کلچر ہی ملے گا آپ کو، تو کس بات کا رونا ہے؟ پھر کہہ دیا جائے گا کہ یہ تو چھوٹی سوچ کا مالک ہے۔۔
نہ چاہتے ہوئے بھی کہنا پڑتا ہے کہ ان مسائل کا حل یہی ہے کہ ہمیں تعلیمی اداروں کو الگ کرنا ہوگا۔ خواتین کے لیے الگ اور مردوں کے لیے الگ تعلیمی ادارے ہی اس کا حل ہیں۔۔ اس کے علاوہ خواتین کالج میں ٹیچنگ سٹاف بھی خواتین کا ہو اور میل والے حصے میں مرد ٹیچر ہی ہوں۔۔ الگ ادارے ممکن نہیں تو ایک ہی ادارے میں وقت مختلف کر دیں۔ یونیورسٹی میں ویسے بھی تو مارننگ اور ایوننگ کی کلاسز ہوتی ہیں تو ایک وقت خواتین اور دوسرا مردوں کے لیے فکس کیجیے۔۔
یہی واحد حل ہے۔۔ اس کے علاوہ شادیاں آسان بنائیں۔ سیٹل ہونے کے چکر سے آزاد ہوں کیوں کہ یہ ہمارے مذہب میں کوئی شرط نہیں ہے۔ ریلشن شپ بنانے یا کمرے میں رات گزار کر جسمانی تسکین حاصل کرنے کے لیے سیٹل یا جاب ہولڈر ہونا شرط نہیں ہے تو شادی اور جائز رشتے کے لیے یہ شرائط کیوں؟
جب جائز تعلقات کو شرائط کا پابند اور ناجائز تعلقات کو شرائط سے آزاد کر دیا جائے گا تو یہی کچھ ہوگا جو آج ہو رہا ہے بل کہ مزید تباہی مقدر بنے گی۔۔ اعتدال اور میانہ روی سے کام لیا جائے، نوالہ چاہے سونے کا کھلائیں مگر نظر شیر کی رکھیں۔۔ یہ بہترین حل ہے۔
تھوڑا نہیں بہت زیادہ سوچیے۔۔