Bachon Se Veeran Masajid
بچوں سے ویران مساجد
جس مسجد میں بچوں کی تعداد کم ہو سمجھ جایا کریں یہاں موجود بڑوں کا رویہ درست نہیں ہے اور جہاں چاروں طرف بچوں کی رونق نظر آئے بچوں کے چہرے پر مسکراہٹ بکھری پڑی ہو بچے بھاگ کر مسجد جائیں تو سمجھ جایا کریں یہاں بڑوں کے رویے میں شفقت، محبت، عزت اور عاجزی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کے بعد یہی بچے مسجدوں کو آباد رکھیں گے وہ جانتے ہیں بچے مسجد آتے رہے تو دین بھی سیکھیں گے آداب بھی اور اخلاقیات بھی سیکھ جائیں گے۔
میں آئے روز جب سنتا ہوں کہ فلاں مسجد میں کسی شخص نے بچے کو تھپڑ مار دیا، بچے کا ہاتھ پکڑ کر پیچھے دھکیل دیا، بچے کو مسجد سے نکال دیا، بچہ ساتھ لانے پر والد کو کھری کھری سنا دی تو یقین کریں سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں یہ کیسے بڑے ہیں؟ یہ کیسے دین کے ٹھیکیدار ہیں؟ یہ کون لوگ ہیں جو خود ہی مسجدیں ویران کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ جو خود ہی اپنی نسلوں کو دین سے بیزار کر رہے ہیں؟ جس کے تم دوست ہوئے اسے دشمنوں کی کیا ضرورت؟ پھر یہی بڑے بیٹھ کر گفتگو کرتے ہیں کہ جی آج کل کے بچے تو نماز کے قریب تک نہیں جاتے ان کے والدین نے دینی تربیت نہیں کی وغیرہ وغیرہ۔
آپ کو اندازہ بھی نہیں ہے کہ ایک بچے کو تیار کرکے مسجد بھیجنے کے لیے ایک ماں کتنی محنت کرتی ہے۔ وہ بچے کو اللہ تعالیٰ سے محبت کا درس دیتی ہے ساتھ بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے کتنی محبت کرتے ہیں؟ اللہ تعالیٰ اسے اپنے گھر میں دیکھ کر کتنے خوش ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ اور فرشتے مسجد میں آنے والے بچوں کو دیکھ کر کیسے خوشی کا اظہار کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ جب وہ بچہ اس ذہن سازی کے ساتھ مسجد میں داخل ہوتا ہے تو یقیناً اس کی نظر میں وہاں موجود نمازی ہی فرشتے ہوتے ہیں وہ ان بڑوں کو فرشتہ تصور کرتا ہے۔ جب یہی لوگ اسے تھپڑ رسید کریں، پیچھے دھکیلنے کی کوشش کریں، کھا جانے والی نظروں سے دیکھیں، اونچی آواز میں ڈانٹ کر بتائیں کہ مسجد میں آہستہ بات کرنی ہے؟ تو اندازہ کیجیے اس بچے کا تصور کیسے ٹوٹ کر بکھرتا ہوگا؟
ہمیں اس معاملے میں پٹھانوں سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ساری بات ماحول کی ہے۔ ان کی مساجد میں بچوں کی بڑی تعداد موجود ہوتی ہے۔ صبح فجر کی نماز میں چھ سے بارہ سال کے بچے بھی کثرت سے پائے جاتے ہیں اور عشاء کی نماز کے وقت چھوٹے چھوٹے بچے ہاتھ میں ٹارچ لائٹ لیے مسجد آ رہے ہوتے ہیں انہیں دیکھ کر جیسے روح تازہ ہو جاتی ہے اور یہ بچے جس محبت سے وضو کرتے ہیں دل چاہتا ہے دیکھتے رہ جائیں۔ ان کے چہرے سے آپ کو ایک فیصد بھی محسوس نہیں ہوگا کہ یہ زبردستی گھر سے نکالے گئے ہیں۔ ان کے چہرے پر مسکراہٹ ہوتی ہے جس کا مطلب ہے وہ خوشی سے مساجد کا رخ کرتے ہیں۔ یہ ساری بات ماحول کی ہے۔
مدرسے کے وقت ان بچوں کی اتنی زیادہ تعداد ہوتی ہے کہ مسجد کا ہال کمرہ اور صحن بھر جاتے ہیں جب کہ الگ سے مدرسے کے لیے جو جگہ ہے وہ بھی بھر جاتی ہے۔ میں نے ان کے بچوں سے گفتگو کی تو معلوم ہوا یہ صرف سکول جاتے ہیں اس کے بعد کوئی ٹیوشن وغیرہ نہیں ہوتی انہیں سارا کام سکول میں کروایا جاتا ہے۔ پھر یہ ظہر کی نماز ادا کرتے ہیں اس کے بعد ایک گھنٹہ آرام کرتے ہیں۔ پھر تین بجے سے پانچ بجے تک قرآن پاک پڑھنے آتے ہیں۔ اس کے بعد ہر اگلی نماز کے درمیان جو وقت ملتا ہے اس میں کھیل کود میں مصروف رہتے ہیں۔ عشاء کی نماز کے بعد تعلیم کا حلقہ لگتا ہے اس میں شامل ہوتے ہیں اس کے بعد دس سے پندرہ منٹ قرآن مجید کی تفسیر سنتے ہیں اور گھر جا کر سو جاتے ہیں۔
مسجد میں بزرگ اور نوجوان ہر بچے کو اس طرح ڈیل کرتے ہیں جیسے ان کی اپنی اولاد ہے۔ انتہائی محبت سے پیش آتے ہیں بچوں کو ہر آتا جاتا شخص تھپکی دے کر ان کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ امام مسجد بشمول ساری انتظامیہ بچوں کو دیکھ کر خوشی کا اظہار کرتے ہیں اور فخر سے کہتے ہیں" ہمارے بعد یہ مساجد ویران نہیں ہوں گی"۔