Thursday, 02 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Wasim Qureshi/
  4. Bachon Ki Tarbiyat Aur Waldain

Bachon Ki Tarbiyat Aur Waldain

بچوں کی تربیت اور والدین

ہم اپنے بچوں کو صرف پیزا کھانے کو نہیں دے رہے بل کہ ان کی تربیت بھی اسی طرح کر رہے ہیں۔ پیزا جس ڈبے میں آتا ہے، وہ ٹیٹرا پیک ہے۔ لیکن پیزا خود گول ہے اور ہم اسے ٹرائی اینگل یعنی تکون کی شکل میں کھاتے ہیں۔ مطلب ظاہری حالت کچھ اور ہے اور اندرونی حالت بالکل مختلف ہے۔ یہی کچھ ہم اپنے بچوں کے ساتھ کر رہے ہیں بحیثیت مسلمان خواہش ہے کہ بچہ نیک بنے۔

والدین کا فرمانبردار ہو، رزق حلال کمائے، ہماری نجات اور بخشش کا ذریعہ بنے وغیرہ وغیرہ۔ مگر تعلیم و تربیت میں تضاد ہے۔ تعلیم اور عمل میں فرق ہے۔ چاہتے ہیں بچہ نیک بن جائے دعائیں بھی کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نیک اور صالح اولاد عطا فرمائے، لیکن سات سال کے بچے پر نماز فرض ہے اور وہ دس سال کا ہو گیا ہے تو کوئی بات نہیں ابھی تو زندگی پڑی ہے نمازیں پھر پڑھ لے گا۔

سکول کی تعلیم کے بارے نظریات بالکل مختلف ہیں۔ دو سال کے بچوں کو سکول بھیجا جا رہا ہے اور سکول کی چھٹی کا کہنے پر لاڈلے بیٹے یا بیٹی کو تھپڑ بھی مارے جاتے ہیں۔ گرمیوں کی تعطیلات میں اکثر ٹیوشن یا اکیڈمی کا وقت تبدیل ہو جاتا ہے۔ صبح پانچ چھ بجے بھی بچوں کو زبردستی اٹھا دیا جاتا ہے۔ لیکن نماز کے لیے ایسا کرنا غلط سمجھتے ہیں۔

چاہتے ہیں بچے پیار محبت اور افیئرز کے چکر سے دور رہیں۔ لیکن کو ایجوکیشن کا خاتمہ نہیں پسند، وہ ایک مولوی صاحب کہہ رہے تھے کہ ڈبل ایم اے کر لیا، پی ایچ ڈی ڈاکٹر بن گئے، بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہیں، مگر نمازِ جنازہ نہ تو پڑھنے آتا ہے نہ پڑھانے آتا ہے۔ یہ سن کر میں نے اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھا تو خود سے شرمندہ ہو گیا۔

نماز جنازہ پڑھتے وقت عید الاضحی اور عید الفطر ادا کرتے وقت اکثر لوگ ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ اب آگے کیا کرنا ہے؟ خود سے سوال کیا ہاں جی قریشی صاحب دو ہزار کے قریب آرٹیکل لکھ دیئے، کئی کتب کا مطالعہ کر لیا کئی جملے یاد ہیں، کیمسٹ کی ڈگری حاصل کر لی لیکن نمازِ جنازہ بھی آتا ہے کہ نہیں؟ شرمندہ ہوا۔ فورآ سے نماز کی کتاب خریدی اور نماز جنازہ ادا کرنے کا طریقہ یاد کیا۔

ہمیں نہیں آتا ہماری دلچسپی نہیں تو بچوں کو کیا ضرورت پڑ سکتی ہے کہ وہ سوشل میڈیا کے اس دور میں تمام آسائشیں چھوڑ کر اس جانب توجہ دیں؟ بچہ تو یہ سب کچھ اپنے ارد گرد ماحول سے سیکھتا ہے۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ اپنا احتساب کریں کہ آپ کے زیرِ سایہ پرورش پانے والی نسلیں کیسی ہوں گی؟ چاہتے ہیں کہ بچہ رزق حلال کمائے مگر اس کے سامنے سارا دن گنگناتے ہیں کہ جی پیسہ نہیں تو کچھ نہیں۔

دولت سے ہی سب کچھ ہے۔ بڑا گھر بڑی گاڑی نہیں تو کچھ نہیں ہے۔ کامیابی کے لیے ان لوگوں کی مثال پیش کرتے ہیں، جن کے پاس بڑا گھر بڑی گاڑی اور نوکروں کی فوج ہے۔ اخلاقیات، ادب واحترام، اچھا کردار، ایمانداری، سچائی اور پاکیزگی ہمارے لیے کوئی معیار نہیں ہے۔ بنانے والے نے چاہے یتیم کے حق پر ڈاکہ ڈالا ہو، رشوت اور سود سے یہ سب کچھ بنایا ہو مگر ہمارے لیے وہ کامیابی کی مثال ہیں۔

پھر آپ یہ امید وابستہ کیے ہوئے ہیں کہ بچہ رزق حلال کمائے تو آپ بیوقوف تو ہو سکتے ہیں۔ مگر عقل مند نہیں ہو سکتے۔ ڈاکٹر عارفہ کہتی ہیں " ہم نے بچوں کو یہ بتایا ہے کہ اچھا روزگار ہی اچھا انسان بناتا ہے جب کہ ہمیں تو یہ بتانا چاہیے تھا کہ اچھا انسان ہی کامیاب انسان ہوتا ہے اور اچھے انسان کو اچھا روزگار بھی مل جاتا ہے"۔ یہ بات سچ ہے آج بچوں کو یہی ترغیب دی جاتی ہے۔

اچھی نوکری اچھا کاروبار بڑا گھر بڑی گاڑی ہی کامیابی ہیں۔ جس کی وجہ سے آج ہر شخص دولت حاصل کرنے کی دوڑ میں بھاگ رہا ہے۔ جس کی وجہ سے انسان کچلے جا رہے ہیں۔ انسانوں کو قتل کیا جا رہا ہے، ان کو لوٹ لیا جاتا ہے مار دیا جاتا ہے۔ اس دوڑ نے انسان کو انسان کا دشمن بنا دیا ہے۔ میں نہیں جانتا کیوں مگر ہمارے والدین نے ہمیں پیسوں کی لالچ اور ہوس سے ہمیشہ دور رکھا ہے۔

مجھے نہیں یاد کبھی ان کے منہ سے سنا ہو کہ پیسہ ہی سب کچھ ہے۔ ابو کہتے ہیں " پیسہ یا تو ہاتھ کی میل ہے یا پھر آزمائش ہے۔ ایسی دولت سے پناہ مانگی جائے جو انسانوں سے، اپنوں سے اور رشتوں سے دور کر دے، بس آ جائے تو شکر ادا کرو، تقسیم کرو، بانٹنے لگ جاؤ، رشتے داروں کی مدد کرو، نہ ملے تو اعتدال اور میانہ روی اختیار کرو، اسی میں جینا سیکھو اور شکر ادا کرتے رہو۔

ہمیں کبھی بھی زیادہ پیسوں والے کی مثال پیش نہیں کی، والدین کی فرمانبردار اولاد، رشتے داروں کی مدد کرنے والے، انسانوں پر خرچ کرنے والے، حلال کمانے والے، ہمارے سامنے ہمارے والدین ان کی مثالیں پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایسی دولت سے پناہ مانگو جو حرام کما کر اکٹھی کی گئی، جس کے آنے سے لوگ پتھر اور مغرور ہو گئے، ایسے لوگوں سے عبرت حاصل کرو جو اپنی" میں " میں غرق ہو گئے ہیں۔

بس آج جیسا آپ بوئیں گے وہی کاٹیں گے، اپنی فصلوں پر توجہ دیں۔ بیج ڈال کر یہ حفاظت بھی ضروری ہے کہ سیراب کرنے والا پانی چوری کا نہ ہو، کھاد کسی کا خون چوس کر نہ ڈالی جائے۔ گندم کا بیج بویا جائے گا تو گندم ہی حاصل ہو گی۔ آپ اس بیج سے چاول حاصل نہیں کر سکتے۔ جیسی فصل چاہتے ہیں ویسا بیج ڈالیے، ورنہ دعائیں اور نیک تمنائیں کسی کام نہیں آئیں گی۔

Check Also

Saudi Arabia Mein Anar Ki Kasht

By Mansoor Nadeem