Aik Kahani, Aik Haqeeqat Aik Aurat
ایک کہانی، ایک حقیقت، ایک عورت
عورت جب بھی اپنے موجودہ وسائل سے بیزار ہو جائے، جب وہ اپنی زندگی کو پریشانیوں کا گڑھ اور دوسری عورتوں کی زندگی کو سکون کا بہتا سمندر سمجھنے لگے تو وہ بہت سے بڑے مسائل کا شکار ہو جاتی ہے۔ خاص طور پر مڈل کلاس گھرانے کی خواتین جب اپر کلاس خواتین جیسا لائف سٹائل اپنانے کی خواہش کو اپنے ذہن پر سوار کر لیتی ہیں تو ان کے دماغ میں ایک خلل پیدا ہو جاتا ہے جس کے بعد وہ درست اور غلط میں فرق کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتی ہیں۔
میں ایسی ہی ایک خاتون کو جانتا ہوں۔ آج سے دو سال پہلے ایک اچھی زندگی گزارنے والی شادی شدہ لڑکی جو اپنی زندگی میں بہت کچھ کرنا چاہتی تھی جس کی نظر میں شادی کے بعد زندگی تباہ ہو کر رہ گئی ہے۔ جس کے مطابق اپنے فیلوز کو ڈاکٹر بنتا دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ میں بھی ڈاکٹر بننے کی خواہش رکھتی تھی۔ مجھ سے مشورہ کیا تو میں نے کہا" دوسروں کے ساتھ اپنی زندگی کا موازنہ کبھی مت کریں۔ جو کچھ آپ کے پاس ہے کئی لوگ اس کی خواہش کرتے ہیں۔ اپنی ازدواجی زندگی پر توجہ دیں اور اپنے بچوں کی تربیت کو ترجیحات میں اول سمجھیں "۔
مگر زیادہ پیسے کمانے کی سوچ پختہ ہو چکی تھی۔ وہ دوسروں جیسا لائف سٹائل اپنانے کی خواہش مند تھی جب کہ میری نظر میں اس کے پاس کسی چیز کی کمی نہیں تھی۔ اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا سب کچھ تھا۔ پھر سے اپنے خواب پورے کرنے کا سفر شروع کر دیا۔ اسی دوران مختلف لوگوں سے ملاقات اور رابطے شروع ہوئے۔ یوں کچھ ایلیٹ کلاس لڑکوں سے دوستیاں ہوتی گئیں اور ان کا لائف سٹائل دیکھ کر کہنے لگی" یہ وہی لائف سٹائل ہے جس کی میں نے کبھی خواہش کی تھی"۔
روز باربی کیو، روز پارٹیاں، بڑی بڑی گاڑیوں میں ایک شہر سے دوسرے شہر کا سفر اور شام سے پہلے گھر واپسی۔ ایک بار پھر مجھ سے شیئر کیا تو میں نے کہا" یہ صرف آنکھوں کے آگے اندھیرا ہے اس کے سوا کچھ نہیں ہے۔ جس سفر پر آپ چل رہی ہیں یہاں منزل صرف رسوائی ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ آپ کو پہلے شاپنگ کروائی جائے گی، پھر بڑی بڑی پارٹیاں، پھر مہنگے مہنگے تحائف، آہستہ آہستہ آپ کو ڈرگز کا عادی بنایا جائے گا اور پھر صرف اور صرف آپ کو ایک سیکس ٹوائے کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔ پھر ایک ناکارہ چیز کی طرح پھینک دیا جائے گا"۔
لیکن میری بات کو یہ کہہ کر جھٹلا دیا گیا کہ آپ غلط سمجھ رہے ہیں۔ وہ لوگ ایسے نہیں ہیں۔ میرے دوست بہت اچھے ہیں وہ میرا بہت خیال رکھتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اس کے بعد چھ سات ماہ تک کوئی بات چیت نہ ہوئی اور پھر مجھے کچھ میسج ملے۔ " میں تباہ ہو کر رہ گئی ہوں۔ ڈرگز کا استعمال کر کےختم ہو گئی ہوں۔ میرے اندر کچھ باقی نہیں رہا۔ سب کچھ ختم ہو گیا ہے۔ لیکن میں چاہ کر بھی یہ سب نہیں چھوڑ پا رہی۔ لانگ ڈرائیو ہو یا کوئی باربی کیو پارٹی، چاہے پیزے کی بات ہو۔ ہر چیز کا اختتام سیکس پر ہی ہوتا ہے۔ میں بیزار ہو گئی ہوں مگر عادی بھی"۔
سن کر بہت افسوس ہوا۔ ایک بار پھر کہا" اللہ تعالیٰ بہتر کرنے والا ہے۔ اب بھی وقت ہے۔ میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ اس سفر کی کوئی منزل نہیں ہے۔ یہ آنکھوں پر بندھی پٹی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ اپنی زندگی میں واپس لوٹ آئیں۔ اپنی خواہشات کو اپنے وسائل کے سانچے میں ڈھال کر چلیں "۔ لیکن اس بار بھی میری باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوا کہ انہیں بس یہی والا لائف سٹائل چاہیے۔۔
اپنے موجودہ وسائل میں خوش رہنا سیکھیے۔ اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں عطا کی ہیں آپ ہر سانس کے ساتھ بھی شکر ادا کریں تو حق ادا نہیں کر سکتے۔ دوسروں کی زندگی کو اپنی توجہ کا مرکز کبھی مت بنائیں۔ " دور کے ڈھول سہانے" اور" ہر چمکتی چیز سونا نہیں "۔ جب آپ اپنی زندگی کو عذاب اور وسائل کو کم سمجھنے لگیں گے تو آپ ان راستوں پر چلنے لگیں گے جس کی منزل کوئی نہیں جو صرف نظر کا دھوکا ہے۔
خواہشات کو قابو میں رکھنے کی ضرورت ہے ورنہ یہ وہ جن ہے جو آپ کو کسی قابل نہیں چھوڑے گا۔