Saturday, 16 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Waqar Ahmad Khan
  4. Jamal Khashoggi Ke Qatal Ke Baad

Jamal Khashoggi Ke Qatal Ke Baad

جمال خشوگی کے قتل کے بعد

امریکی دارالحکومت "واشنگٹن، ڈسٹرکٹ آف کولمبیا" کے ڈسٹرکٹ کورٹ کی جانب سے 6 اگست، 2020ء کو سعودی ولی عہد "شہزادہ محمد بن سلمان" کو سمن بھیجا گیا ہے جس میں عدالت کی جانب سے انہیں پیش ہونے کا حکم دیا گیا ہے۔ عدالت نے یہ سمن "سعد بن خالد الجابری" کی جانب سے 6 اگست، 2020ء کو دائر کردہ ایک درخواست پر قانونی کاروائی کرتے ہوئے بھیجا ہے۔

"سعد بن خالد الجابری" سعودی انٹیلیجنس میں آفیسر رہ چکے ہیں۔ یہ سعودی وزارت داخلہ میں میجر جنرل کے عہدے پر فائز رہنے کے علاوہ سابقہ سعودی ولی عہد "شہزادہ محمد بن نائف" کے خاص مشیر اور چیف آف سٹاف بھی رہ چکے ہیں۔ یہ امریکی انٹیلیجنس ایجنسی "سی آئی اے" کے ہمراہ کئی مشترکہ اور اہم کیسز پر کام کر چکے ہیں جس کی بدولت یہ سعودی عرب کے علاوہ امریکہ میں بھی کافی شہرت رکھتے ہیں۔ انہیں 10 ستمبر، 2015ء کو اپنے سرکاری عہدے سے برطرف کر دیا گیا تھا کیونکہ یہ سابقہ ولی عہد "شہزادہ محمد بن نائف" کے انتہائی قریبی ساتھی تھے۔

"شہزادہ محمد بن سلمان" اور "شہزادہ محمد بن نائف" کے درمیان تعلقات انتہائی کشیدہ تھے کیونکہ "شہزادہ محمد بن سلمان"بذات خود ولی عہد بننے کے چکر میں تھے۔ اس ضمن میں "شہزادہ محمد بن سلمان" کو "سعد بن خالد الجابری" پر شبہ تھا کہ یہ "شہزادہ محمد بن نائف" کے ساتھ مل کر سعودی شاہی خاندان کے افراد کے خلاف سازشوں میں ملوث ہیں۔ بعض حلقوں کی جانب سے یہ قیاس کیا جاتا ہے کہ عہدے سے برطرفی کے بعد بھی "سعد بن خالد الجابری" نے "شہزادہ محمد بن نائف" کے ساتھ بدستور رابطہ رکھا اور ان کے مشیر کی حیثیت سے مختلف امور میں ان کی رہنمائی کرتے رہے لیکن جب "شہزادہ محمد بن نائف" اور "شہزادہ محمد بن سلمان" کے مابین تعلقات انتہائی حد تک کشیدہ ہو گئے تو 17 مئی، 2017ء کو "سعد بن خالد الجابری" سعودی عرب چھوڑ کر کینیڈا منتقل ہو گئے۔ اس کے صرف ایک مہینے بعد 21 جون، 2017ء کو سعودی فرمانروا "شاہ سلمان بن عبدالعزیز" نے "شہزادہ محمد بن نائف" کو ولی عہد کے عہدے سے ہٹا کر اپنے بیٹے "شہزادہ محمد بن سلمان" کو ولی عہد نامزد کر دیا۔ اس فیصلے کے فوراً بعد "سعد بن خالد الجابری" نے کینیڈا میں سیاسی پناہ کیلئے درخواست دے دی اور یہ آج کل کینیڈا میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔

ڈسٹرکٹ کورٹ میں دائر کردہ اپنی درخواست میں "سعد بن خالد الجابری" نے "شہزادہ محمد بن سلمان" کے علاوہ مزید 12 افراد کو بھی نامزد کیا ہے جن میں "سعود ألکھتانی (سعودی رائل کورٹ کے مشیر)"، "احمد الأسيرى (سعودی ڈپٹی چیف آف ملٹری انٹیلیجنس"، اور "بدر ألعسكر (شہزادہ محمد بن سلمان کے قریبی ساتھی)" کے علاوہ دو امریکی شہری "ليلى ابوألجدال" اور "یوسف ألراجعى" بھی شامل ہیں۔"سعد بن خالد الجابری" نے اپنے درخواست میں یہ موقف اختیار کیا کہ "میں سعودی انٹیلیجنس میں اہم عہدے پر کام کر چکا ہوں اور "شہزادہ محمد بن نائف" کا انتہائی قریبی ساتھی رہ چکا ہوں، لہذا "شہزادہ محمد بن سلمان" نے مجھے قتل کرنے کیلئے اپنی سپیشل "ٹائیگر ٹیم" کو کینیڈا بھجوایا لیکن "ٹورونٹو پیئرسن انٹرنیشنل ائیرپورٹ" پر موجود "کینیڈا بارڈر سروس ایجنسی" کے اہلکاروں کو ان پر شک ہو گیا اور اس ٹیم کے تمام ارکان کو ڈی پورٹ کر دیا گیا۔ میرے پاس چونکہ "شہزادہ محمد بن سلمان" کے غیر قانونی اقدامات اور اختیارات کے ناجائز استعمال کی تفصیلات اور ثبوت موجود ہیں، اسلیئے "شہزادہ محمد بن سلمان" مجھے قتل کروانا چاہتا ہے"۔ اپنے درخواست میں "سعد بن خالد الجابری" نے مذید کہا ہے کہ، "شہزادہ محمد بن سلمان" مجھے سعودی عرب واپس لانے کیلئے ہر طرح کے قانونی اور غیر قانونی حربے آزما رہا ہے۔ پہلے اس نے مجھ پر کرپشن کا جھوٹا الزام لگا کر "انٹرپول" کے ذریعے مجھے سعودی عرب واپس لانے کی کوشش کی۔ اس کے بعد کینیڈا کی حکومت سے میری حوالگی کا مطالبہ کرتا رہا۔ بعد ازاں مارچ، 2020ء میں میرے دو بچوں کو سعودی دارالحکومت "ریاض" میں واقع میرے گھر سے اٹھا کر غائب کر دیا۔ اس کے علاوہ میرے رشتہ داروں کو بھی ذدوکوب کیا تاکہ مجھے واپس سعودی عرب بلوا سکے۔ میرے دو بچے اب بھی اس کے قبضے میں ہیں جن کی رہائی کا بھی میں اپنے درخواست میں مطالبہ کرتا ہوں"۔

قارئین کرام کو بتاتا چلوں کہ "ٹائیگر ٹیم" یا جس کو "فرقة النمر" بھی کہا جاتا ہے، دراصل "شہزادہ محمد بن سلمان" نے ولی عہد بننے کے تقریباً ایک سال بعد اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کرنے کیلئے بنائی تھی۔ یہ ٹیم تقریباً 50 اعلی تربیت یافتہ فوجی، انٹیلجنس آفیسرز اور سعودی سیکیورٹی سروسز کے دوسرے شعبوں سے منسلک افراد پر مشتمل ہے۔ یہ ٹیم براہ راست "شہزادہ محمد بن سلمان" کے ماتحت کام کرتی ہے اور اس کا کام سعودی عرب اور دنیا کے دیگر ممالک میں موجود سعودی حکومت کے مخالفین کو نشانہ بنانا ہے۔ اس ٹیم میں قتل کرنے والوں سے لیکر قتل کے شواہد مٹانے والے "فارنسک ایکسپرٹس" تک موجود ہوتے ہیں۔ یہ 15 سے 20 افراد کا گروپ ہوتا ہے جو اپنا "کام" اس انداز سے کرتا ہے کہ نہ کوئی شواہد باقی رہیں اور نہ ہی بین الاقوامی میڈیا کی ان پر نظر پڑے۔

اس ٹیم کے بارے میں تفصیلات پہلی بار بین الاقوامی میڈیا میں منظر عام پر اس وقت آئیں جب اس ٹیم نے 2 اکتوبر، 2018ء کو مشہور و معروف سعودی صحافی "جمال احمد خشوگی" کو ترکی کے دارالحکومت "استنبول" میں واقع سعودی عرب کے سفارت خانے کے اندر قتل کیا تھا۔

"جمال احمد خشوگی" سعودی عرب کے نامور اور مشہور صحافی، کالم نگار اور مصنف تھے۔ یہ 13 اکتوبر، 1958ء کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ 1982ء میں امریکہ کی "انڈیانا سٹیٹ یونیورسٹی" سے "بی بی اے" کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد باقاعدہ صحافت کی دنیا میں قدم رکھا۔ 1985ء تا 1987ء سعودی اخبار "عکاظ" اور سعودی عرب سے ہی شائع ہونے والے انگریزی اخبار "سعودی گزٹ" میں بطوراسسٹنٹ مینیجر کام کیا۔ 1987ء تا 1990ء مشہور سعودی روزنامے "الشرق الأوسط" کے علاوہ ہفت روزہ سعودی رسالے "المجلة" اور "المسلمون" کیلئے بطور رپورٹر فرائض سرانجام دیتے رہے۔ 1991ء تا 1999ء معروف سعودی اخبار "المدينة" کے جنرل مینیجر اور ایڈیٹر انچیف رہے۔ بعد ازاں 1999ء تا 2003ء سعودی عرب کے معروف انگریزی اخبار "عرب نیوز" کے ڈپٹی ایڈیٹر انچیف بھی رہے۔ 2003ء میں ہی ایک اور سعودی روزنامے "الوطن" سے بطور ایڈیٹر انچیف وابستگی اختیار کی لیکن صرف دو مہینے بعد ہی انہیں اپنے عہدے سے برطرف کر دیا گیا۔ اس کی وجہ ان کا "وہابی ازم" کی مخالفت کرنا تھا۔ برطرفی کے بعد برطانیہ چلے گئے اور وہاں جلا وطنی کی زندگی گزارنے لگے۔ 2015ء میں بحرین سے ایک سٹیلائٹ نیوز چینل "العرب" شروع کیا لیکن صرف 11 مہینے بعد ہی بحرین کی حکومت نے یہ چینل بند کر دیا۔

جون، 2017ء میں امریکہ منتقل ہونے کے بعد ستمبر، 2017ء سے مشہور امریکی اخبار "واشنگٹن پوسٹ" میں لکھنا شروع کر دیا۔"جمال احمد خشوگی" سعودی حکومت، سعودی فرمانروا "شاہ سلمان بن عبدالعزیز" اور خصوصی طور پر ولی عہد "شہزادہ محمد بن سلمان" کے سخت ناقد اور مخالفین میں شمار ہوتے تھے۔ انہیں "شہزادہ محمد بن سلمان" کی پالیسیوں سے بہت سخت اختلاف تھا۔ 3 اپریل، 2018ء کو واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والے اپنے ایک کالم میں انہوں نے سعودی حکومت کے "وہابی ازم" طرز حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ یہ سعودی عرب میں عورتوں پر پابندی، سعودی عرب کا امریکہ، بحرین اور مصر کے ساتھ ملکر قطر کا محاصرہ کرنے، یمن کے ساتھ جنگ، ایران کے ساتھ سرد اور جارحانہ رویہ اور کینیڈا کے ساتھ سعودی عرب کے بگڑے ہوئے سفارتی تعلقات پر سخت تنقید کرتے تھے اور سعودی عرب کے بیشتر سیاسی معاملات میں بگاڑ کا ذمہ دار "شہزادہ محمد بن سلمان" کو ٹہراتے تھے۔"شہزادہ محمد بن سلمان" کو "جمال احمد خشوگی" پر سخت غصہ تھا اور وہ متعدد بار برملا یہ اظہار کر چکے تھے کہ "میں ہر اس ہاتھ کو کاٹ ڈالوں گا جو میرے خلاف لکھے گا"۔

2 اکتوبر، 2018ء کو "جمال احمد خشوگی" ترکی کے دارالحکومت "استنبول" میں واقع سعودی سفارت خانے میں اپنی ہونے والی شادی سے متعلق ضروری کاغذات حاصل کرنے کی غرض سے داخل ہوئے لیکن یہ وہاں سے واپس نہیں نکل پائے۔ واقع رونما ہونے کے بعد بین الاقوامی مصدقہ ذرائع سے موصول ہونے والی خبروں اور تفصیلات کے مطابق "جمال احمد خشوگی" کو سفارت خانے کے اندر داخل ہونے کے فورا بعد سر پر مارا گیا اور زہریلا انجیکشن لگانے کے بعد قتل کر دیا گیا۔ بعد ازاں ان کی لاش کو آری سے کاٹ کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا۔ ٹائیگر ٹیم کے تقریباً 15 لوگوں نے اس کاروائی میں حصہ لیا جنہیں خاص طور پر اس کام کیلئے "شہزادہ محمد بن سلمان" کی طرف سے بھیجا گیا تھا۔

امریکہ، اقوام متحدہ، عالمی برادری اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کی جانب سے "جمال احمد خشوگی" کے قتل کی شدید مذمت کی گئی اور فی الفور تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا، جس کے نتیجے میں 15 اکتوبر، 2018ء کو سعودی اور ترک انویسٹیگیشن اہلکاروں کی جانب سے ترکی کے دارالحکومت "استنبول" میں واقع سعودی سفارت خانے کا دورہ کیا گیا۔ دوران انویسٹیگیشن ترک اہلکاروں کو اس بات کے شواہد ملے کہ یہاں واقعی میں "جمال احمد خشوگی" کا قتل ہوا تھا اور قتل کے بعد "فارنسک ایکسپرٹس" کی جانب سے قتل کے شواہد کو مٹا دیا گیا تھا۔ سفارتخانے کی "سی سی ٹی وی" فوٹیج میں بھی "جمال احمد خشوگی" کو سفارتخانے کے اندر جاتے ہوئے دیکھا گیا لیکن ان کے واپس باہر آنے کی کوئی فوٹیج موجود نہیں تھی۔ نومبر، 2018ء میں امریکی انٹیلیجنس ایجنسی "سی آئی اے" نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ "جمال احمد خشوگی" کے قتل کا حکم براہ راست "شہزادہ محمد بن سلمان" کی جانب سے دیا گیا تھا۔ مارچ، 2019ء میں "انٹرپول" نے 20 افراد کے ریڈ وارنٹ جاری کیئے جن کا تعلق "جمال احمد خشوگی" کے قتل سے بتایا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں، 19 جون، 2019ء کو "اقوام متحدہ کے کمشنر برائے انسانی حقوق" کی جانب سے 101 صفحات پر مشتمل ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی گئی، جس میں سعودی حکومت کو "جمال احمد خشوگی" کے قتل کا ذمہ دار ٹہرایا گیا۔

سعودی حکومت "جمال احمد خشوگی" کے قتل کے حوالے سے بار بار اپنا موقف تبدیل کرتی رہی اور بالآخر عالمی برادری کی جانب سے شدید دباؤ کی وجہ سے ستمبر، 2019ء میں "شہزادہ محمد بن سلمان" کی جانب سے یہ بیان سامنے آیا کہ وہ سعودی اہلکاروں کی جانب سے "جمال احمد خشوگی" کے قتل کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں کیونکہ یہ اہلکار ان کے نیچے کام کرتے رہے ہیں۔ 23 دسمبر، 2019ء کو سعودی عدالت نے "جمال احمد خشوگی" کے قتل کے جرم میں 5 اہلکاروں کو سزائے موت جبکہ 3 اہلکاروں کو 24 سال قید کی سزا سنائی۔ بعد ازاں 22 مئی، 2020ء کو "جمال احمد خشوگی" کے بچوں نے ان 5 اہلکاروں کو معاف کر دیا اور عدالت نے ان کی موت کی سزا کو معطل کر کے قید کی سزا میں تبدیل کر دیا۔

عالمی مبصرین کا خیال ہے کہ جس طرح "شہزادہ محمد بن سلمان" نے "جمال احمد خشوگی" کا قتل کروایا اور اپنے اہلکاروں کو قربانی کا بکرا بنا کر خود صاف بچ نکلا، اسی طرح اب امریکی عدالت سے بھی اپنے آپ کو صاف بچا لے گا۔ اسی حوالے سے "بروس فن"، جو کہ امریکہ کے سابق ایسوسی ایٹ ڈپٹی اٹارنی جنرل ہیں، نے حال ہی میں غیر ملکی نیوز چینل "الجزیرة" کو دیئے گئے اپنے ایک انٹرویو میں کہا، "میں سمجھتا ہوں کہ "شہزادہ محمد بن سلمان" اب امریکی صدر "ڈونلڈ ٹرمپ" اور امریکی سیکریٹری آف سٹیٹ "مائیک پومپیو" پر ہر ممکن دباؤ ڈالیں گے کہ انہیں امریکی حکومت کی جانب سے "لیٹر آف سجیشن امیونیٹی" جاری کیا جائے"۔ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ "یہ لیٹر دراصل امریکی قانون کے مطابق ایک طرح کا حکم نامہ ہوتا ہے جس میں عدالت سے استدعا کی جائے گی کہ عدالت "شہزادہ محمد بن سلمان" کے خلاف دائر کیئے گئے کیس کو فی الفور خارج کر دے کیونکہ اس کیس کی وجہ سے خدشہ ہے کہ امریکہ اور سعودی عرب کے مابین بین الاقوامی تعلقات میں بگاڑ پیدا ہو جائے"۔

"انٹرنیشنل ریلیشنز" کا ایک ادنیٰ سا طالبعلم ہونے کے ناطے میری اپنی ذاتی رائے اس حوالے سے یہ ہے کہ صدر "ڈونلڈ ٹرمپ" کے پاس "شہزادہ محمد بن سلمان" کی مدد کرنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں ہے کیونکہ ایک طرف امریکہ میں 3 نومبر، 2020ء کو صدارتی انتخابات ہونے جا رہے ہیں جس میں امریکی صدر "ڈونلڈ ٹرمپ" کا "ڈیموکریٹک پارٹی" کے صدارتی امیدوار "جو بائیڈن" سے سخت مقابلہ متوقع ہے، تو دوسری جانب امریکہ اور سعودی عرب کے مابین 20 مئی، 2017ء کو ہونے والے 460 بلین ڈالرز کے اسلحے کے فروخت کا معاہدہ ہے، جس کی رو سے سعودی عرب اب تک 110 بلین ڈالرز کا اسلحہ خرید چکا ہے اور 2027ء تک 360 بلین ڈالرز کا اسلحہ مذید خریدے گا۔

علاوہ ازیں، مشرق وسطی کی بگڑتی ہوئی صورتحال کو کنٹرول کرنے اور اسرائیل کو عرب ممالک سے تسلیم کروانے کیلئے بھی امریکہ کو سعودی عرب کے تعاون کی سخت ضرورت ہے۔ حال ہی میں متحدہ عرب امارات کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنا اسی سلسلے کی پہلی کڑی ہے۔ ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو "شہزادہ محمد بن سلمان" پر امریکی عدالت میں دائر ہونے والی درخواست نے صدر "ڈونلڈ ٹرمپ" اور امریکی حکومت کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔

بہرکیف، مستقبل میں حالات کیا کروٹ بدلتے ہیں اور صدر "ڈونلڈ ٹرمپ" اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے "شہزادہ محمد بن سلمان" کی جان امریکی عدالت سے چھڑواتے ہیں یا نہیں، یہ تو آنے والا وقت ہی بتا سکتا ہے۔ حالات پر گہری نظر رکھتے ہوئے ہمیں آنے والے وقت کا انتظار کرنا ہوگا۔

Check Also

Noah Harari Aur Richard Dawkins Ki Nayi Kitaben

By Mubashir Ali Zaidi