Daulat e Usmani
دولتِ عثمانی
یہ دو الگ واقعات ہیں لیکن دونوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ پہلا واقعہ سال 2010ء کا ہے۔ میں ان دنوں برطانیہ میں مقیم تھا۔ 14 اپریل، 2010ء کو شام 9 بجے ایک پاکستانی چینل پر نیوز دیکھی کہ معروف اسلامی سکالر "ڈاکٹر اسرار احمد" آج لاہور میں انتقال فرما گئے ہیں۔ نیوز اینکر نے ان کا سرسری سا ذکر کیا، صرف 3 منٹ سے بھی کم کی خبر چلی، ڈاکٹر صاحب کے جنازے کے ایک دو فوٹیج چلے اور بات ختم۔
اب آپ دوسرا واقعہ سنیں۔ میں پاکستان میں تھا۔ 18 جولائی، 2012ء کو میرا کسی کام سے اسلام آباد جانا ہوا۔ شام کو ایک دوست کیساتھ اس کے گھر میں بیٹھا تھا کہ ٹیلیوژن سکرین پر نظر پڑ گئی۔ پاکستان کے تمام نیوز چینلز نے اپنی تمام دیگر ٹرانسمیشنز کو باقاعدہ طور پر منقطع کرکے بڑے بڑے الفاظ میں سرخ پٹی کے ساتھ ایک خبر چلانا شروع کر دی تھی، "معروف انڈین ایکٹر اور پروڈیوسر راجیش کھنہ انتقال کر گئے"۔ اس کے بعد پاکستان کے تمام نیوز چینلز پر ایک عجیب و غریب اور نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل پڑا۔ راجیش کھنہ کی پیدائش کب اور کہاں ہوئی، اس کی تعلیم کتنی تھی، کس سکول سے پڑھا تھا، کس کالج سے گریجویشن کی تھی، فلم انڈسٹری کب جوائن کی تھی، پہلی فلم کون سی تھی اور آخری کون سی تھی، شادی کب کی تھی، بچے کب پیدا ہوئے تھے، کس قسم کا کھانا پسند کرتا تھا، کون سے کپڑے اس کے پسندیدہ تھے، کتنی فلموں میں کام کیا تھا، کتنے گانے ریکارڈ کروائے تھے، کس کس اداکارہ کیساتھ فلموں میں کام کیا تھا، گھر میں کتنے کتے پال رکھے تھے، کون سی گاڑی استعمال کرتا تھا، غرض یہ کہ راجیش کھنہ کے دنیا میں تشریف لانے سے لیکر اس کے جنازے تک تمام واقعات کو ہمارے معزز نیوز چینلز نے انتہائی تفصیل کیساتھ نشر کیا۔ اس کے بعد تمام نیوز چینلز سے اعلان ہوا کہ چونکہ راجیش کھنہ کی موت ہمارے لیئے ایک بہت بڑا "المیہ" اور "ناقابل تلافی نقصان" ہے، لہذا اس "عظیم الشان نقصان" کی "تلافی" کیلئے اگلے 15 سے 20 دن تک تمام چینلز روزانہ کی بنیاد پر راجیش کھنہ کی فلمیں نشر کریں گے۔
قارئین کرام، ہمارا میڈیا بھی ہمارے ہی معاشرے کا حصہ ہے اور اس سے وابسطہ لوگ بھی ہم میں سے ہی ہیں۔ لہذا اگر ہم مسلمان ہیں تو ہمارا میڈیا بھی مسلمان ہے اور اس سے وابسطہ لوگ بھی مسلمان ہیں۔ لیکن یہاں ذہن میں ایک سوال بار بار ابھرتا ہے کہ کیا ایک اسلامی ملک کے میڈیا کا یہ کردار ہو سکتا ہے کہ اگر اس کے ملک کا ایک عظیم اسلامی اسکالر، عالم دین، عالم قرآن، دین اسلام کا ایک عظیم مبلغ اور داعی، اپنی ساری زندگی قرآن کریم کی ترویج اور دین اسلام کی تبلیغ کیلئے وقف کر دینے والا ایک عظیم انسان فوت ہو جائے، تو وہ میڈیا اس کا کفن تک بھی دکھانا گوارا نہ کرے لیکن اس کے برعکس اگر کسی دوسرے ملک میں کوئی بدبودار کافر، اللہ رب العزت کا دشمن اور ایک کٹر مشرک مر جائے، جس کی ساری زندگی بتوں کو سجدے کرنے، ناچنے گانے، شراب پینے اور زنا کرنے کے میں گزری ہو، تو وہی میڈیا اس کے آبا و اجداد تک کا شجرہ نسب کھول کر پوری قوم کے سامنے رکھ دے؟ کیا آپ کا ذہن مانتا ہے کہ ایک اسلامی ملک میں ایسا ممکن ہے؟ اگر نہیں تو پھر کیا واقعی پاکستان ایک اسلامی ملک ہے؟ کیا ہم واقعی ایک اسلامی معاشرے میں سانس لے رہے ہیں؟ کیا ہم واقعی مسلمان ہیں؟
ان سب سوالات کے جوابات تو مجھے اسی وقت مل گئے تھے جب ڈاکٹر اسرار احمد صاحب اور راجیش کھنہ کی موت پر دو بلکل متفرق تماشے مجھ سمیت پوری قوم کی بصارت سے گزرے تھے۔ ان دو متفرق تماشوں سے پوری قوم پر پاکستانی میڈیا کی اصلیت بھی واضح ہو گئی تھی لیکن جو کچھ بھی ہوا اور ہو رہا ہے، اس کیلئے ہم اکیلے میڈیا کو ہی مورد الزام نہیں ٹھرا سکتے۔ کیونکہ جو عوام چاہتی ہے، میڈیا بھی وہی دکھاتا ہے، یعنی جیسا عمل ہوتا ہے، ویسا ہی صلہ بھی ملتا ہے۔
دوسری جانب دیکھیں تو یہ بھی بہر کیف ایک روشن حقیقت ہے کہ میڈیا کا قوم اور معاشرے کی ذہن سازی میں ایک اہم اور بنیادی کردار ہوتا ہے۔ اسلیئے آج میں نہایت ادب اور احترام کیساتھ اپنے ملک کے "مسلمان"، "حیا دار" اور "سچے" میڈیا سے چند سوالات پوچھنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ امید کرتا ہوں کہ میرے سوالات کا برا نہیں منایا جائے گا۔
میرا سوال ہے کہ آپ بتائیں، اگر آپ راجیش کھنہ کی فلمیں 20 دن تک دکھا سکتے ہیں تو روزانہ صرف 2 گھنٹے کیلئے نبی کریم حضرت محمد مصطفی ﷺ کی حیات مبارکہ پر کوئی پروگرام کیوں نشر نہیں کر سکتے؟ راجیش کھنہ کو کیا پسند تھا، وہ کون سے کپڑے پہنتا تھا، وہ کیا کھاتا تھا، وہ کون سی شراب پیتا تھا، اس نے کتنے کتے پال رکھے تھے، وہ کتنی گاڑیوں کا مالک تھا، اس نے کتنی فلموں میں کام کیا، اس کے کتنے بچے تھے، اگر آپ 20 دن تک عوام کو یہ سب بکواس دکھا سکتے ہیں تو آپ عوام کو دین اسلام کے بارے میں آگاہی دینے کے پروگرام کیوں نشر نہیں کر سکتے؟ آپ عوام کو اللہ رب العزت کی واحدانیت کے بارے میں کیوں نہیں بتا سکتے؟
آپ کو جب "حضرت مولانا طارق جمیل صاحب" نے تھوڑا سا آئینہ دکھایا اور آپ کو "بے حیاء" اور "جھوٹا" کہا تو آپ سے ہضم نہیں ہوا اور اب آپ پچھلے ایک عرصے سے مولانا طارق جمیل صاحب کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہوئے ہیں، کیونکہ وہ سچ بولنے کی جسارت کر گئے ہیں اور سچ کی یہی خاصیت ہے کہ یہ کڑوا ہونے کے سبب کبھی بھی ہضم نہیں ہوتا۔
خیر چھوڑیں، آپ یہ بتائیں کہ اگر آپ 12 سال کی چھوٹی چھوٹی بچیوں کو کھلے عام ٹیلیوژن سکرین پر نچوا سکتے ہیں، تو اس کی جگہ ان بچیوں کے سر پر چادر کیوں نہیں رکھ سکتے؟ آپ انہیں امہات المومنین رضی الله عنهما کی مبارک اور پاکیزہ سیرت کے بارے میں کیوں نہیں بتا سکتے؟ آپ اپنے چینلز پر "عامر لیاقت حسین" جیسے پیشہ ور مداری کی جگہ اصلی اور قابل علماء کرام کو مدعو کر کے ان کی وساطت سے ہماری اس بگڑی ہوئی اور کفار کی تقلید میں اندھی قوم کو نبی کریم حضرت محمد مصطفی ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی مبارک سیرت اور احوال زندگی کے بارے میں کیوں نہیں بتا سکتے؟ قرآن کریم کی عظمت اور اس کی تعلیم و ترویج کے بارے میں آگاہی کیوں نہیں دے سکتے؟ دین کی تبلیغ کے بارے میں کیوں نہیں بتا سکتے جو ہر مسلمان پر اس کی موت تک فرض ہے؟ آپ اس نادان قوم کو زندگی کے 24 گھنٹے کے اعمال کے بارے میں کیوں نہیں بتا سکتے کہ ایک مسلمان کو 24 گھنٹے کی زندگی کس طرح گزارنے کا حکم ہے؟ آپ ہمیں یہ کیوں نہیں بتا سکتے کہ صبح و شام کی اور ہر موقع کی الگ الگ مسنون دعائیں کون کون سی ہیں جو ہمارے پیارے نبی ﷺ ہمیں بتا کر اور سکھا کر گئے تھے؟
قارئین کرام، ایک عالم دین کی موت پورے عالم انسانیت کی موت ہوتی ہے۔ علماء کرام ہمارے درمیان انبیاء کرام کے وارث ہیں اور اللہ رب العزت کے دین کے رکھوالے ہیں۔ عالم دین کے چہرے کو دیکھنے سے بھی ثواب ملتا ہے۔ ہم نے جو کلمہ پڑھا ہے "لا إله إلا الله محمد رسول الله"، اس عظیم الشان کلمے کا ہم پر حق ہے کہ ہم اپنی زندگی میں اللہ رب العزت کے احکامات کو نبی کریم حضرت محمد مصطفی ﷺ کے مبارک طریقوں سے پورا کریں اور اس مقصد کو پانے کیلئے ہمیں دین کا ضروری علم آنا چاہیئے جو کہ ہمیں ہمارے علماء کرام کی بدولت ہی نصیب ہو سکتا ہے۔
ہمیں اللہ رب العزت نے اسلیئے دنیا میں نہیں بھیجا کہ ہم اپنی زندگی نعوذ باللہ کسی مشرک کی فلمیں دیکھنے میں گزار دیں، بلکہ ہمیں اپنی اطاعت اور عبادت کیلئے بھیجا ہے۔ جو عظیم الشان کلمہ ہمیں نصیب ہوا ہے، اس کی اللہ رب العزت کے ہاں اتنی قدر و منزلت ہے کہ اگر ترازو کے ایک پلڑے میں اس کلمے کو رکھ دیا جائے اور دوسرے پلڑے میں ساتھوں زمین و آسمان رکھ دیئے جائیں تو کلمے والا پلڑا جھک جائے گا۔ ہمارے اسلاف حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین ہیں جنہوں نے ہمیں اپنے عمل سے یہ ثابت کر دکھایا کہ اس کلمے پر عمل کیسے کرنا ہے۔ اب ہماری ذمہ داری ہے کہ خود بھی اس پر عمل کریں اور اپنے آنے والی نسلوں کو بھی اس کلمے کی اہمیت سے روشناس کرائیں۔
ہماری میڈیا کو یہ بات سمجھنی ہو گی کہ ہماری اور ہماری آنے والی نسلوں کی بقاء راجیش کھنہ کے کتوں اور اس کی گاڑیوں کی تعداد معلوم کرنے میں نہیں ہے بلکہ نبی کریم ﷺ کے مبارک طریقوں کے مطابق زندگی گزارنے میں ہے۔
علامہ اقبال نے شاید اسی وقت محسوس کر لیا تھا کہ ہم غلط راستے پر اور غلط منزل کی طرف محو سفر ہیں، اسی لیئے 1913ء میں انہوں نے اپنی شہرہ آفاق دو نظمیں "شکوہ" اور "جواب شکوہ" لکھی تھیں۔ بعدازاں یہ دونوں نظمیں ان کی کتاب "کلیات اقبال" میں شائع ہوئیں۔
"جواب شکوہ" میں شاید ہمیں ہی مخاطب کرتے ہوئے اقبال نے فرمایا تھا،
ہر کوئی مست مئے ذوق تن آسانی ہے
تم مسلماں ہو، یہ انداز مسلمانی ہے؟
حیدری فقر ہے، نہ دولت عثمانی ہے
تم کو اسلاف سے کیا نسبت روحانی ہے؟
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآن ہو کر
اللہ رب العزت ہم سب کو اپنے دین کی صحیح سمجھ عطاء فرمائے اور استقامت کیساتھ اپنے اسلاف کی پیروی کرنے اور دین پر صحیح معنوں میں عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔