Saturday, 04 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Waqar Ahmad Khan/
  4. Dair Ayad, Durust Ayad

Dair Ayad, Durust Ayad

دیر آید، درست آید

"شیخہ ہند فیصل القاسمی" متحدہ عرب امارات کے ریاست شارجہ کی شہزادی اور شارجہ کے برسراقتدار شاہی خاندان "القاسمی" کی ایک اہم فرد اور رکن ہیں۔ یہ شارجہ میں پیدا ہوئیں، ان کی عمر 36 سال ہے اور ان کا شمار متحدہ عرب امارات کے نامور کاروباری شخصیات میں ہوتا ہے۔ 15 اپریل، 2020ء کو انہوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ایک ٹویٹ دیکھی اور یہ غصے سے لال ہو گئیں۔ اس ٹویٹ میں کیا لکھا تھا، یہ ٹویٹ کس بارے میں تھی اور کس نے کی تھی، یہ میں آپ کو تفصیل کیساتھ بتاتا ہوں لیکن اس سے پہلے میں آپ کو ہندوستان اور خلیجی ممالک کے تعلقات کے بارے میں تھوڑی معلومات فراہم کرنا ضروری سمجھتا ہوں کیونکہ جس ٹویٹ کا میں نے ذکر کیا ہے، ممکن ہے کہ آنے والے وقت میں یہ ٹویٹ ہندوستان اور خلیجی ممالک کے مابین موجود قریبی تعلقات کو متاثر کرنے کا سبب بن جائے۔

ہندوستان اور خلیجی ممالک کے تعلقات کو قائم ہوئے کچھ زیادہ وقت نہیں گزرا ہے۔ اگر ہم ماضی کی بات کریں تو ہندوستان کی طرف سے ماضی میں کی گئی لاتعداد کوششوں کے باوجود خلیجی ممالک ہمیشہ ہندوستان کیساتھ قریبی تعلقات استوار کرنے سے گریزاں رہے۔ 25 مئی، 1981ء کو خلیجی ممالک کے مابین باہمی تعاون کی تنظیم "گلف کوآپریشن کونسل" کا قیام عمل میں آیا۔ اس تنظیم کے ارکان میں سعودی عرب، قطر، بحرین، کویت، عمان اور متحدہ عرب امارات شامل تھے۔ اس تنظیم کے قیام کے ساتھ ہی ہندوستان نے خلیجی ممالک کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات استوار کرنے کی کوششیں اگرچہ نئے سرے سے شروع کر دیں تھیں، تاہم سرد جنگ میں پاکستان اور امریکہ کے بلاک میں شامل ہونے اور دوسری طرف پاکستان کے ساتھ انتہائی دیرینہ اور قریبی سفارتی، اقتصادی، معاشی اور عسکری تعلقات ہونے کے باعث خلیجی ممالک نے اس وقت ہندوستان کی پیشکش کا مثبت جواب نہیں دیا۔

سرد جنگ کے خاتمے کے بعد دنیا کا منظر نامہ بدلا تو امریکہ اور مغربی ممالک کیساتھ خلیجی ممالک کی ترجیحات بھی بدل گئیں اور پہلی بار خلیجی ممالک نے ہندوستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔"انٹرنیشنل ریلیشنز" کا طالبعلم ہونے کے ناطے یہ میری اپنی ناقص رائے ہے اور میں وثوق کیساتھ کہتا ہوں کہ خلیجی ممالک کا پاکستان کے ساتھ ماضی میں چاہے جتنا بھی مضبوط سفارتی، اقتصادی، معاشی اور عسکری تعلق رہا ہو، لیکن یہ بات تو طے ہے کہ یہ تعلق مسلمان ہونے یا دونوں فریقین کا اسلام سے گہری وابستگی ہونے کی بناء پر ہر گز نہیں تھا بلکہ صرف اور صرف ایک دوسرے سے ذاتی مفادات ہونے اور سرد جنگ میں دونوں کا امریکی اتحادی ہونے کی وجہ سے تھا۔

خلیجی ممالک میں ہندوستان کا اہم ہدف سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات تھے کیونکہ یہ دونوں ممالک "گلف کوآپریشن کونسل" میں سربراہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اسی ضمن میں ہندوستان اور خلیجی ممالک کے تعلقات میں پہلی اہم پیش رفت جنوری 2001ء میں دیکھنے کو ملی، جب اس وقت کے ہندوستانی وزیر خارجہ جسونت سنگھ نے 19 تا 21 جنوری سعودی عرب کا تین روزہ سرکاری دورہ کیا اور اس وقت کے اپنے ہم منصب شہزادہ سعود بن فیصل کے علاوہ اس وقت کے سعودی فرمانروا شاہ فہد بن عبد العزیز اور دیگر اہم وزراء سے ملاقاتیں کیں۔ یہ دورہ ہندوستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں ایک سنگ میل ثابت ہوا اور دونوں ممالک نے تاریخ میں پہلی بار دوطرفہ سفارتی اور تجارتی تعلقات کے فروغ کے علاوہ آپس میں معاشی اور اقتصادی تعاون پر بھی رضامندی ظاہر کی۔

پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت ہندوستان کے خلیجی ممالک اور بالخصوص سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کیساتھ بڑھتے ہوئے راہ و رسم پر اگرچہ ہمیشہ ناپسندیدگی اور تحفظات کا اظہار کرتی رہی اور خلیجی ممالک کو سفارتی سطح پر مسلسل یہ باور بھی کرواتی رہی کہ ہندوستان سے راہ و رسم بڑھانا خطے میں ایک نئی کشیدگی کو جنم دے گا، تاہم خلیجی ممالک نے پاکستان کے موقف کو نظرانداز کرتے ہوئے ہندوستان کی طرف اپنا جھکاؤ جاری رکھا۔ پاکستان کو شدید جھٹکا اس وقت لگا جب 2008ء میں ممبئی حملوں کے بعد ہندوستان اور سعودی عرب کے مابین موجود "سٹریٹیجک توانائی کے تعلقات" کو دونوں ممالک نے باہمی طور پر "سٹریٹیجک شراکت داری" میں تبدیل کرتے ہوئے ممبئی حملوں کا الزام پاکستان پر عائد کیا اور پاکستان کو باقائدہ طور پر انتہا پسندی اور دہشتگردی کی نرسری قرار دیا۔ یہ بات اس وقت کے ہندوستانی وزیر اعظم من موہن سنگھ اور سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کی جانب سے فروری 2010ء میں دستخط کردہ "ریاض ڈیکلیریشن" میں واضح طور پر موجود ہے۔

نریندر مودی نے 26 مئی، 2014ء کو بطور ہندوستانی وزیراعظم اقتدار سنبھالتے ہی خلیجی ممالک بالخصوص متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے ساتھ ہندوستان کے پہلے سے موجود باہمی تعلقات کو نئی اونچائیوں پر لے جانے کیلئے مذید تگ و دو سے کام شروع کیا اور تمام خلیجی ممالک کے تیز ترین سفارتی دورے شروع کیئے۔ بلاشبہ نریندر مودی نے اپنے 6 سالہ دور حکومت میں خلیجی ممالک کیساتھ قریبی سفارتی، معاشی، تجارتی اور اقتصادی تعلقات کو استوار کرنے کیلئے ہندوستان کے پچھلے تمام وزراء اعظم کے مقابلے میں زیادہ وقت اور کوششوں کو صرف کیا ہے۔ خلیجی ممالک کیساتھ باہمی رابطوں کو باضابطہ طور پر فروغ دینے کیلئے دوروں کے تبادلے ہوں، ذاتی خیر سگالی اور پیار و محبت کا اظہار ہو یا معاشی اور تجارتی معاہدے ہوں، نریندر مودی نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

اگست 2015ء میں ہندوستان اور متحدہ عرب امارات نے مشترکہ بیانیہ جاری کیا جس میں کہا گیا کہ ہندوستان اور متحدہ عرب امارات کے مابین مشترکہ طور پر صدیوں پرانے تجارتی اور ثقافتی تعلقات ہیں۔ دونوں ممالک نے ان تعلقات کی تجدید کرتے ہوئے اپنی موجودہ شراکت داری کا جشن بھی منایا۔ اسی طرح اپریل 2016ء میں ہندوستان اور سعودی عرب نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں دونوں ممالک کے مابین خلیجی خطے اور برصغیر پاک و ہند کے استحکام اور سلامتی کیلئے قریبی باہمی رابطے کے قیام کا اعادہ کیا اور اسے مشترکہ طور پر تسلیم کیا۔ فروری 2018ء کے ہندوستان اور عمان نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں دونوں ممالک کے مابین بحری تجارت اور ثقافتی تبادلے سے وابستہ تاریخی اور قریبی دوطرفہ تعلقات اور اسٹریٹجک شراکت داری کے قیام کا اعادہ کیا۔ تعلقات کو مذید مستحکم کرنے کیلئے متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے ہندوستان کے بنیادی ڈھانچے، توانائی اور صنعت کے شعبوں کی ترقی کے لئے بالترتیب 70 ارب ڈالر اور 100 ارب ڈالر کی بڑی سرمایہ کاری کرنے کی پیشکش بھی کی ہے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ ہندوستان میں چند مخصوص منصوبوں میں پہلے ہی متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب چند ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر چکے ہیں۔

خلیجی ممالک نے ذاتی احترام کے اظہار کے طور پر ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی کو اپنے اعلی ترین سویلین اعزازات سے بھی نوازا۔ ان اعزازات میں سعودی عرب کی طرف سے 3 اپریل، 2016ء کو دیا جانے والا "آرڈر آف عبدالعزیز السعود"، متحدہ عرب امارات کی طرف سے 4 اپریل، 2019ء کو دیا جانے والا "آرڈر آف زاید" اور بحرین کی طرف سے 24 اگست، 2019ء کو دیا جانے والا "کنگ حماد آرڈر آف رینائسنس" شامل ہیں۔ البتہ ان تمام اقدامات اور کوششوں کا نریندر مودی کے علاقائی ہم منصبوں اور ہندوستان کے خارجی حریفوں نے کبھی بھی خیر مقدم نہیں کیا اور ان کو پوری طرح مسترد کیا ہے۔

اب آپ ٹویٹ کی طرف آئیں۔ اس قصے کا آغاز تب ہوا جب عالمی وبا کرونا وائرس کی وجہ سے ہندوستانی حکومت نے دہلی کے "نظام الدین تبلیغی مرکز" میں موجود تبلیغی جماعت کے افراد کا کرونا ٹیسٹ کیا اور اس میں سے 19 افراد کے ٹیسٹ کے نتائج مثبت آئے۔ جیسا کہ پوری دنیا کو معلوم ہے، ہندوستان میں موجود ہندو انتہا پسند گروہوں کا یہ پرانا اور من پسند شیوہ رہا ہے کہ ہندوستان میں اگر مکھی بھی مر جائے تو اس کا الزام بھی یا تو براہ راست پاکستان پر یا پھر ہندوستان میں موجود مسلمانوں پر لگا دیا جاتا ہے۔ اب کی بار بھی یہی ہوا اور موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہندو انتہا پسندوں نے کرونا وائرس کے پھیلاؤ کا الزام تبلیغی جماعت پر لگا دیا۔ ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے جعلی ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر وائرل کی گئیں جس میں تبلیغی جماعت کو کرونا وائرس کے پھیلاؤ کا ذمہ دار قرار دیا گیا اور پروپیگنڈا کیا گیا کہ یہ "جہادی وائرس" ہے جو تبلیغی جماعت میں کام کرنے والے مسلمان اپنے ساتھ دوسرے ممالک سے لائے ہیں۔ اس سب کا مقصد یہ تھا کہ جہاں تک ممکن ہو، مسلمانوں اور تبلیغی جماعت کے خلاف نہ صرف پورے ہندوستان بلکہ پوری دنیا میں جھوٹا اور منفی پروپیگنڈا کر کے انہیں بدنام کیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ فرقہ واریت کی آگ بھڑکا کر ایک بار پھر ہندوستان میں ہندو مسلم فسادات کروانے کی راہ ہموار کی جا سکے۔

سوشل میڈیا پر جاری ہندوؤں کی اس بدتمیزی سے متاثر ہو کر دبئی میں رہائش پذیر ایک انتہا پسند ہندو بزنس مین، جس کا نام سوراب اپادھیا ہے اور وہ دبئی میں ایک کنسلٹنسی فرم چلاتا ہے، نے اپریل 2020ء کے اوائل میں سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنی اسلام دشمنی کا ثبوت دیتے ہوئے تبلیغی جماعت اور مسلمانوں کے خلاف نازیبا زبان استعمال کرتے ہوئے متعصبانہ اور نفرت انگیز ٹویٹز کر دیئے۔ اس نے اپنے ٹویٹ میں لکھا، "تبلیغی جماعت نے جہاد کا نیا طریقہ نکالا ہے۔ یہ جان بوجھ کر دوسرے لوگوں پر تھوکتے ہیں تاکہ کرونا وائرس کو پھیلایا جا سکے"۔ اس نے دوسری ٹویٹ میں مذید لکھا، "انتہا پسند تبلیغی مسلمانوں کیلئے موت ہے، یہ شیطان کی اولاد ہیں "۔ آخر میں اس نے گالیاں دیتے ہوئے رومن اردو میں لکھا، "جا اکھاڑ لے، جو اکھاڑ سکتا ہے"۔

اب آپ اس کو انتہا پسند ہندو نظریے "ہندوتوا" کے پیروکار سوراب اپادھیا کی بدقسمتی کہہ لیں یا پورے ہندوستان کی بدبختی سمجھ لیں، سوراب اپادھیا کے ان ٹویٹز پر متحدہ عرب امارات کی شہزادی شیخہ ہند فیصل القاسمی کی نظر پڑھ گئی۔ انہوں نے ان متعصبانہ ٹویٹز کے جواب میں 16 اپریل، 2020ء کو سوراب اپادھیا کے ٹویٹز کی سکرین شاٹس لگاتے ہوئے اپنے اکاونٹ سے ٹویٹ کیا، "آپ کی بداخلاقی اور بدتمیزی ہرگز قابل قبول نہیں ہے۔ آپ اپنا رزق اسی سرزمین سے کماتے ہیں جس کے مذہب کے بارے میں آپ نے بد لحاظ ہو کر بکواس کی۔ آپ کی باتوں کو بغیر نوٹس لیئے نظر انداز نہیں کیا جائے گا"۔ اپنے ایک دوسرے ٹویٹ میں شہزادی نے مذید کہا، "جو کوئی بھی متحدہ عرب امارات میں تعصب پسندی اور نفرت انگیزی کو پھیلائے گا، اس کو ملک بدر کر دیا جائے گا"۔

متحدہ عرب امارات کے شاہی خاندان کی شہزادی کی اس معاملے میں براہ راست مداخلت اور ردعمل نے ٹویٹر پر ایک جنگ چھیڑ دی جس میں شاہی خاندان کے افراد کے علاوہ ایلیٹ کلاس کے بزنس مین، میڈیا کے افراد اور پوری دنیا سے مختلف مکتبہ فکر کے لوگ بھی شامل ہو گئے جبکہ ہندوستان کی طرف سے ہندو انتہا پسندوں نے بھی اس جنگ میں بھرپور حصہ لیا۔ اگرچہ سوراب اپادھیا نے شہزادی شیخہ ہند فیصل القاسمی کی جانب سے سخت ترین ردعمل آنے کے بعد اپنا ٹویٹر اکاونٹ ڈیلیٹ کر دیا تھا اور اب چھپتا پھر رہا ہے لیکن یہ جنگ ٹویٹر پر اب بھی بدستور جاری ہے۔

قارئین کرام، ایسا شاید پہلی بار ہوا ہے کہ خلیجی ممالک سمیت پوری دنیا نے ہندوستان کے انتہا پسند نظریے "ہندوتوا" کا مکروہ اور گھناؤنا چہرہ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی کیلئے یہ ایک مشکل ترین دور ہے۔ وہ اس معاملے پر تاحال خاموش ہیں کیونکہ اگر وہ ہندو انتہا پسندوں کے خلاف کچھ بولتے ہیں (جو کہ ناممکن ہے کیونکہ وہ خود "ہندوتوا" کے پیروکار ہیں اور اسی بنیاد پر وہ الیکشن جیت کر وزیراعظم بنے ہیں ) تو ان کی حکومت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ دوسری طرف اگر وہ اس معاملے میں ہندو انتہا پسندوں کو کھلے عام سپورٹ کرتے ہیں تو متحدہ عرب امارات اور دوسرے خلیجی ممالک کے ساتھ جو انہوں نے اتنے برسوں کی محنت سے دیرینہ تعلقات قائم کیئے ہیں، ان تعلقات پر پانی پھر سکتا ہے جو کہ نظر بھی آ رہا ہے۔

خلیجی ممالک اور ہندوستان کے تعلقات کا مستقبل کیا ہو گا، یہ تو آنے والا وقت ہی بتا سکتا ہے۔ فالحال تو ہم شہزادی شیخہ ہند فیصل القاسمی کو ان کے اس غیرت مند اقدام پر خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور انہیں یہی کہہ سکتے ہیں کہ، "دیر آید، درست آید"۔

دوسری جانب ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی کا آج کل عجیب حال ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ،

نہ خدا ہی ملا، نہ وصال صنم

نہ ادھر کے رہے، نہ ادھر کے رہے

Check Also

Israel Ka Doobta Hua Bera

By Azam Ali