Bilawal Bhutto Ka Naya Bayaniya
بلاول بھٹو کا نیا بیانیہ
جب ملک کی آبادی کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے تو کیوں نہ ملک پر نوجوان ہی حکمرانی کریں، آج کے بزرگ سیاست دانوں نے بھی جب اپنی سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا تو وہ جوان تھے مگر اب سیاست میں نوجوانوں کو یہی لوگ موقع نہیں دے رہے اور اقتدار اور اس کے حصول کی جدوجہد سے چمٹے ہوئے ہیں، بزرگوں کے پاس سیاست کا تجربہ ضرور ہے مگر دہائیوں پر مبنی سیاسی جدوجہد کے بعد ان پر ماضی کا بوجھ بھی ہے، وہ انتقام اور نفرت سے بھرے ہوئے ہیں، ماضی میں الجھے ہوئے سیاست دان مستقبل کی تعمیر نہیں کرسکتے، یہ بلاول بھٹو کا وہ بیانیہ ہے کہ جس کے ردعمل میں شورشرابہ اور چیخ و پکار ضرور ہے مگر سب اندر سے جانتے ہیں کہ یہی بیانیہ آج کا سب سے بڑا سچ ہے۔
بلاول بھٹو نے خیبرپختونخوا میں ہونے والے ورکرز کنونشنز میں یہ بات بھی کہی کہ عوام جس کو ووٹ دیں گے، چاہے وہ کوئی بھی ہو، عوام کے فیصلے کی عزت کی جائے گی کیونکہ حکمران کا انتخاب کسی اور کا نہیں بلکہ عوام کا حق ہے، بلاول بھٹو کی اس بات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ نئے اور پرانے سیاست دانوں والا ان کا مطالبہ صرف اپنے لئے نہیں ہے بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ تمام سیاسی جماعتوں میں نوجوانوں کو موقع ملے، عوام جس نوجوان کو منتخب کریں، بلاول بھٹو کے مطابق وہ عوام کے فیصلے کے ساتھ کھڑے ہوں گے چاہے ان کا حریف ہی عوام کا انتخاب کیوں نہ ہو۔
ابھی پاکستانی سیاست کا جائزہ لیا جائے تو اقتدار کی گیند کلیم اللہ سے سمیع اللہ اور سمیع اللہ سے کلیم اللہ کو پاس ہورہی ہے اور دونوں کے پاؤں قبر میں لٹکے ہوئے ہیں، یہ کیسے ممکن ہے کہ ملک کے تمام بزرگ سیاست دان جو 60 برس سے اوپر کے ہیں، ان کو ملک کے 70 فیصد نوجوان اپنا مسیحا تسلیم کرلیں، اگر پی پی پی پی کے صدر آصف زرداری کا یہ فیصلہ ہوسکتا ہے کہ اب سیاست کی دوڑ میں نوجوان بلاول بھٹو کو آگے آنا چاہئیے تو میاں نواز شریف، عمران خان اور مولانا فضل الرحمان کو بھی کسی نوجوان کو موقع دینا چاہئیے اور یہ موقع نمائشی نہ ہو بلکہ ملکی سیاست میں فیصلہ سازی کا مکمل اختیار نئی نسل کو ملنا چاہئیے۔
بلاول بھٹو نے اپنے اس بیانئے کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ پرانے سیاست دانوں کو سیاست چھوڑنے کا مشورہ اور نوجوانوں کو سیاست میں موقع دینے کی ان کی بات کا مطلب کسی پرانے سیاست دان کی عمر یا اس کی بزرگی کی توہین نہیں ہے بلکہ ان پرانے سیاست دانوں کی روش ہے کہ دہائیوں قبل ہونے والی چپقلشوں کو کلیجے سے لگائے بیٹھے ہیں، 30 سال پہلے کی لڑائیوں کے بدلے آج تک لے رہے ہیں، یہ نفرت سے اتنے بھرے ہوئے ہیں کہ ملک کی ترقی کے بجائے ان کا پورا وقت حریف کو نقصان پہنچانے کی کوششوں میں صرف ہوجاتا ہے۔
بلاول بھٹو کا یہ بیانیہ اگر ملک کے نوجوانوں نے اپنالیا اور اس بیانئے کے تحت کسی بھی سیاسی جماعت کی نوجوان قیادت کو موقع مل گیا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ملک کی 70 فیصد نوجوان آبادی کو اپنا مسیحا مل جائے گا جو اکثریت کے دکھ، درد اور احساس کو سمجھ سکتا ہوگا، ایک نوجوان ہی نوجوانوں کے مسائل کو محسوس کرسکتا ہے، 25 سال کے نوجوان کے لئے 65 برس کے بزرگ سیاست دان کو سمجھانا بہت مشکل ہے، سیاست کے اس جنریشن گیپ کی وجہ سے ملک کے مسائل حل نہیں ہورہے، ملک کے نوجوانوں کے پاس اگلا عام انتخاب ایک سنہری موقع ہے، وہ کسی بھی سیاسی جماعت کی نوجوان قیادت کو منتخب کرکے نیا پاکستان تعمیر کرسکتے ہیں۔