Aeen Ki 26Wi Tarmeem, Sawal o Jawab
آئین کی 26ویں ترمیم، سوال و جواب
کیا آئینی ترمیم میں ججوں کی جانب سے ججوں کے لئے ججوں کے تقرر کے کالے قانون کا خاتمہ غلط ہے؟
پوری دنیا میں ایسا کہیں نہیں ہوتا کہ ایک جج دوسرے جج کو تعینات کرے اور پاکستان میں بھی اس وقت تک ایسا نہیں ہوا تھا کہ جب تک شہید محترمہ بینظیر بھٹو وزیراعظم کی حیثیت میں ججوں کا تقرر کرنے کا فیصلہ نہیں کیا تھا، یہ 1997 کی بات ہے جب شہید محترمہ بینظیر بھٹو کے اختیارات کو کم کرنے کے لئے ججوں کو جج منتخب کرنے کا انوکھا اختیار دیدیا گیا تھا، 18ویں آئینی ترمیم میں ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے یہ اختیار ججوں سے واپس لیا مگر جسٹس افتخار چوہدری نے اس وقت کی اسٹبلشمنٹ کی مدد سے بندوق کے زور پر 19ویں آئینی ترمیم کروائی اور یہ اختیار واپس ججوں کو مل گیا!
کیا آئینی ترمیم میں آئینی بینچ کا قیام غلط ہے؟
دنیا کے 85 ممالک میں آئینی مقدمات کی سماعت کے لئے وفاقی عدالت موجود ہے، قائداعظم محمد علی جناح سے لے کر میثاق جمہوریت تک ہر مرحلے پر آئینی عدالت کے قیام کی جدوجہد ہوئی، پاکستان پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن، جمعیت علمائے اسلام اور پاکستان تحریک انصاف دہائیوں سے اس آئینی عدالت کے حق میں دلائل دے رہے ہیں، آئینی عدالت، سول سوسائٹی سے وکلاء تنظیموں تک کا بنیادی مطالبہ رہا ہے تاکہ عدالت کا عام آدمی کو انصاف دینے کا عمل متاثر نہ ہو، ابھی حال یہ ہے کہ 50 ہزار سے زائد قیدیوں کی اپیلیں اعلی عدالتوں میں زیر التواء ہیں اور ان کی باری اس لئے نہیں آتی کہ جج کبھی آلو اور ٹماٹر کی قیمتیں طے کررہے ہوتے ہیں تو کبھی ڈیم فنڈ جمع کررہے ہوتے ہیں، دنیا میں ایسا کہیں نہیں ہوتا۔
کیا جسٹس فائز عیسی کی توسیع یا جسٹس منصور علی شاہ کو روکنے یا عمران خان کو مزید سزا دینے کے لئے آئینی ترامیم کی گئی ہیں؟
آئینی ترامیم میں کوئی ایک ایسی شق نہیں کو کسی خاص جج کو فائدہ دے یا نقصان پہنچائے، جسٹس فائز عیسی چند دنوں میں ریٹائر ہوجائیں گے اور وہ کسی عدالت کے جج نہیں ہوں گے اور ممکنہ طور پر چیف جسٹس منصور علی شاہ ہی ہوں گے، ان ترامیم سے عمران خان سمیت جیل میں موجود کسی بھی قیدی کو فائدہ تو ہوسکتا ہے کہ فوری انصاف ملے تاہم انہیں اس کا نقصان کوئی نہیں، ان کے مقدمات کسی نئی عدالت میں منتقل بھی نہیں ہوں گے۔
کیا آئینی ترامیم سے فوج کا سیاسی کردار مضبوط ہوا؟
آئینی ترامیم میں کوئی ایسی شق نہیں جس سے فوج کے سیاسی کردار کو فائدہ ہو، اس آئینی ترمیم میں فوجی عدالتوں کا کوئی ذکر نہیں، آرمی چیف کی مدت ملازمت کی توسیع کا بھی اس آئینی ترمیم میں کوئی ذکر نہیں۔
حکومت کی جانب سے ججوں کی تعیناتی کتنی شفاف ہوگی؟
حکومت کسی جج کو تعینات نہیں کرے گی، پارلیمان کی 12 رکنی کمیٹی جج کا تقرر کرے گی اور اس کمیٹی میں آدھے اپوزیشن کے لوگ ہوں گے اور آدھے حکومت کے۔۔ آسان الفاظ میں ججوں کی تعیناتی کے فیصلے میں اب پی ٹی آئی بھی شریک ہوگی۔
کیا پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی کو اغوا کرکے زبردستی آئینی ترمیم منظور کروائی گئی؟
آئینی ترمیم کی منظوری میں کوئی ایک ایسا ووٹ شامل نہیں جو پی ٹی آئی یا سنی اتحاد کونسل یا کسی ایسے آزاد رکن کا ہو، جو خود کو پی ٹی آئی کا کہتا ہو، مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلزپارٹی، جمعیت علمائے اسلام اور ایوان میں موجود مکمل آزاد اراکین کے ووٹوں کو ملا کر آئینی ترمیم کے حق میں نمبرز پورے تھے، پی ٹی آئی نے جن اراکین کے اغوا ہونے کی بات کی یا جن کو پیسوں کی پیش کش کی بات کی، انہوں نے آئینی ترمیم کے لئے ہونے والی رائے شماری میں حصہ ہی نہیں لیا۔
آئینی ترمیم سے ملک کو کیا فائدہ ہوگا؟
اعلی عدالتوں کے وہ جج، جو عام آدمی کو انصاف دینے کے بجائے سیاسی مقدمات میں الجھے ہوئے تھے، اب ان کی عدالتوں میں عام آدمی کے مقدمات کی سنوائی ہوگی اور سماعت کا ایک بھی موقع ملے بغیر برسوں سے قید اسیروں کی مشکلات میں کمی ہوگی، آئینی ترمیم کے بعد ججوں کی جانب سے دوسرے جج پسند و ناپسند کی بنیاد پر لگانے کا کا اختیار ختم ہوچکا ہے جس کے بعد میرٹ کا فروغ ہوگا۔