Friday, 18 October 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Toqeer Bhumla
  4. Who Are You

Who Are You

تم کون ہو

روح اور مادے کے درمیان تعلق کی کلاس تھی مجھ سمیت بیس افراد جو مختلف رنگ و نسل و مذاہب اور قومیت رکھتے تھے ہم سب کے لیے "تم کون ہو؟" کا پہلا جواب اپنا نام تھا، ہمارے سمارٹ ٹیبلٹ استاد کے عقب میں آویزاں بڑی سکرین کے ساتھ منسلک تھے، اور ہمارے جواب وہاں ہماری آئی ڈی کے ساتھ جگمگا رہے تھے۔

استاد نے ایک نظر ہمارے جوابات کی طرف ڈالی اور اپنا وہی سوال دہرایا، اس بار ہم سب نے اپنی قومیت کا بتایا، اس بار بھی استاد کی طرف سے ویسا ہی ردعمل اور وہی سوال، اور اگلے ہر جواب کا ایک ہی ردعمل اور ایک وہی سوال تھا، اب ہم ہر بار نیا جواب دیتے جارہے تھے اور ہم میں سے ہر کوئی یہی سمجھ رہا تھا کہ استاد ہمارے جوابات سے مطمئن نہیں ہے یا اس سوال کا جواب ویسا نہیں ہے جیسا ہم سوچ رہے اور لکھ رہے ہیں۔

ہم نے نام، قومیت، مذہب، خطہ، تعلیم، ذات پات، سماجی حیثیت، ازدواجی حیثیت، جیسے جوابات دیے اور آٹھ نو جوابات کے بعد بھی اسی سوال کی تکرار رہی تو ہمیں لگا جیسے ہم سب اپنے متعلق اس سے زیادہ جانتے ہی نہیں ہیں، جیسے قمیض کی خالی جیب کو الٹا کر باہر نکالا جاتا ہے ویسے ہی اس لمحے ہم اپنے اندر اور باہر سے بالکل کھوکھلے ہوچکے تھے، اور خالی نظروں سے ایک دوسرے کی طرف حیران و پریشان دیکھ رہے تھے کہ ہم کون ہیں؟ یا کون سا جواب ہماری شناخت کی درست نمائندگی کر سکتا ہے؟

ہر بار وہی سوال دہرایا جانے لگا اور ہم میں سے ہر ایک کو یہ احساس ہونے لگا تھا کہ ہمارے جواب قابل قبول نہیں یا سوال کے مطابق نہیں ہیں۔

لمحہ تفکر میں ڈوبے ہوؤں کو استاد کی آواز نے چونکا دیا جو کہہ رہا تھا مجھے ہر کسی سے اسی سوال کے 100 جواب چاہیں جو ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہوں اور ہر نیا جواب پہلے جواب کی نفی کرتا ہو یا نہ مگر تائید نہ کرتا ہو۔

ہم مفلس کی جیب کی مانند خالی ہوچکے تھے اور استاد کہہ رہا تھا، خود کو ٹٹولو، جھاڑو، ہلاؤ، کھنگالو مگر تم کون ہو اس کا جواب نکالو۔

سوال "تم کون ہو؟" اب ہمارے لیے بہت بڑا چیلنج بن گیا تھا، کیونکہ ہم نے اپنی پہچان تو اُن کرداروں، لیبلز، ٹیگز اور بیرونی صفات سے جوڑ رکھی تھی جن کا اظہار ہوچکا تھا اور ہم خود کو بھی تو اس سے زیادہ نہیں جانتے تھے۔ اس لمحے پہلی بار شدت سے بے بسی کے ساتھ یہ احساس ہوا کہ عرفان ذات یا خود شناسی کہن سنن میں تو فینسی لگتے ہیں مگر اپنے من میں ڈوبنا اور اپنی ذات کی ان دیکھی گہرائیوں میں اترنا کار دشوار تھا۔

استاد کہنے لگا اس وقت میں نے تم سے وہ تمام ظاہری شناختیں اگلوا لی ہیں، چھین لی ہیں جو تم جانتے تھے یا جن پر تم اتراتے تھے۔ اب میں نے تم کو اندر اور باہر سے خالی کر دیا ہے اب اس خلا سے تمھارا حقیقی وجود دریافت ہونا چاہیے، کہر آلود زمین کے سینے پر چھپی سیاہ و سفید چوٹیوں کو پوری قوت کے ساتھ اپنا وجود الگ کرنا ہے، میں چاہتا ہوں تم سب اپنے کوکون کو اندر سے توڑو اور جوہر کو تلاش کرو، اسے پہچانو اور پھر جانو کہ تم اصل وہ ہو، اور اب اس حاصل شدہ اصل کو ہی برقرار رکھنا ہے یا نئی شناخت دینی ہے یہ تم اس لمحہ ادراک سے سیکھو گے۔

اپنے آپ کو خالی کردینا ایک دلچسپ تجربہ تھا اور

بے بسی کی جگہ اب دلچسپی نے لے لی تھی، ہم سب کسی غوطہ خور کی مانند اپنے ذات کے سمندر میں ڈبکی لگانے لگے تھے۔ یوں لگ رہا تھا کہ ہم اپنے آپ سے کچھ اگلوا کر ہی دم لیں گے چاہے وہ موتی ہو یا کنکر اسے قبول کرنا ضروری ہے۔

پہلی بار احساس ہورہا تھا کہ بیرون خانہ لگی تعارفی تختی درونِ خانہ رہنے والے سے قطعاً میل نہیں کھاتی تھی۔

بے تحاشا جوابات جنہیں ہر بار رد کیا جاتا تھا ان میں سے میرا کچھ جوابات کا ایک مجموعہ جسے قدرے تامل کے بعد قبولیت کی کچی پکی سند ملی تھی آپ کے سامنے رکھتا ہوں:

بلھا کیہ جاناں میں کون!

"اس روئے زمین پر تضادات کی مجسم شکل، میں اپنے تمام تر برے بھلے مشاہدات اور تجربات کا مجموعہ ہوں، محبت، درد، خوشی اور غم کے لمحات کا مجموعہ۔ میں مستقل حالت ارتقا میں ہوں، جس کی تعریف جامد لیبلز یا سماجی تختیوں سے نہیں ہوتی بلکہ ان خیالات سے ہوتی ہے جن کی میں پرورش کرتا ہوں، جن پر عمل کرتا ہوں، جنہیں پوشیدہ رکھتا ہوں، اور جن اقدار کے ساتھ میں زندگی گزارتا ہوں، میں سانسوں اور ان الفاظ کے درمیان وہ بے بس خامشی ہوں جو فقط اپنی مرضی سے اپنی بولی بولنا چاہتا ہوں، ہر لحظہ تغیرات کی اس دنیا میں ہر چیز کا معنی اور ہر چیز سے اپنے تعلق کی تلاش میں ہوں مگر پھر بھی نہیں جانتا کہ میں کون ہوں۔ 

Check Also

Frame Se Bahir

By Farhat Abbas Shah