Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Toqeer Bhumla
  4. Umeed Ke Baghair Zindagi Mout Ke Mutradif Hai

Umeed Ke Baghair Zindagi Mout Ke Mutradif Hai

امید کے بغیر زندگی موت کے مترادف ہے

دوستوفسکی، روسی ادیب سے کون واقف نہیں ہے۔ اُس وقت کے روسی شہنشاہ کی مخالفت اور بغاوت کے الزام میں گرفتاری کے بعد، دوستوفسکی کو دیگر ساتھیوں سمیت گرفتار کر لیا گیا اور ان سب کو جیل میں اس طرح ڈال دیا گیا کہ وہ ایک دوسرے کی نہ شکل دیکھ سکتے تھے اور نہ آواز سن سکتے تھے، وہاں قید و بند میں دوستوفسکی نے آٹھ ماہ گزارے۔ وہ اسیری ایسی تھی جو کسی بھی بہادر سے بہادر انسان کو توڑنے کے لیے کافی تھی۔

جیل کی کال کوٹھڑی میں سب سے الگ تھلگ رکھ کر دوستوفسکی کے ساتھ ایسا سلوک کیا گیا جسے "خاموشی کی اذیت" کا نام دیا گیا۔ جس میں قیدی کو کسی بھی ذی روح کی آواز تک رسائی حاصل نہیں ہوتی، نہ ہی اس کی اپنی چیخ و پکار کا جواب آتا ہے۔ اس کی کال کوٹھڑی کے ارد گرد چلنے والوں کو ایسے جوتے پہنائے گئے تھے جو بے آواز تھے، اسے کھانا اتنی خاموشی سے دیا جاتا تھا کہ برتن رکھنے تک آواز نہیں ابھرتی تھی، نہ ہی کھانا کھانے یا کوئی کام کرنے کے لیے جیلر اس پر چیختے چلاتے تھے۔ اس قید تنہائی میں قیدی کو باور کرایا جاتا ہے کہ وہ دنیا کا آخری انسان ہے اور اسے باقی ماندہ زندگی دیواروں میں مقید، تن تنہا بے مقصد ہی گزارنی ہوگی۔

قید کرنے والوں کا خیال تھا کہ دوستوفسکی کو وحشت تنہائی میں اس کے جنوں کے سپرد کرنا فقط یہی سزا کافی ہے کہ یہ اپنے شعور اور اپنے جنوں کی کشمکش کے ہاتھوں خود ہی مارا جائے۔

پھر ایک دن اسے زنجیروں کا کفن پہنا کر حکم دیا گیا کہ وہ اپنی قبر خود کھودے، پھر اپنے ہاتھوں سے کھودے ہوئے گڑھے کے سرے پر اسے کھڑا کر دیا گیا، اور اس دن اس کے دوستوں کو اس کے سامنے لایا گیا جن کی حالت دوستوفسکی سے مختلف نہیں تھی۔ ان سب کو فائرنگ اسکواڈ کے سامنے کھڑا کر دیا گیا، بارود سے بھری بندوقیں ان پر تان لی گئی اور سپاہیوں کو کہا گیا کہ گولی مارنے کے آرڈر سے پہلے گنتی شروع کرو۔

بندوقچی لبلبی کو دبانے والے ہی تھے کہ ایسا معجزہ رونما ہوتا ہے جس کا کسی نے بھی تصور نہیں کیا تھا، ہانپتا کانپتا ہوا ایک سپاہی یقینی موت کے اس منظر نامے میں داخل ہوتا ہے اور ان سب قیدیوں کی سزائے موت کو کالعدم کرنے کا حکم پڑھ کر سناتا ہے، دوستوفسکی کو اس وقت یہ معلوم نہیں تھا کہ، اس کے جسم کے ساتھ روح کو توڑنے کے لیے ترتیب دیا گیا فائرنگ اسکواڈ محض ایک نفسیاتی کھیل تھا۔

سزائے موت کے کالعدم قرار دینے کے بعد اسے سائیبریا کی ایک جیل میں منتقل کر دیا جاتا ہے، جہاں جسمانی سختیاں اور سخت مشقت کا کام بھی لیا جاتا تھا۔ سائبیریا میں چار سال تک قید رکھا گیا، اس دوران وہ کئی بیماریوں سے بھی نبرد آزما رہا۔

جیل سے رہائی کے بعد دوستوفسکی نے ایسے پانچ ناول لکھے جن کی اس سے پہلے تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ دوستوفسکی نے انسانی روح میں پوشیدہ تاریک غاروں تک کا راستہ اپنے قلم سے تلاش کیا اور اس کے بعد دنیائے ادب کا چہرہ بدل گیا۔ وہ شخص جسے زنداں میں بند کیا گیا تھا، اس کے قلم نے تاریک دانوں سے نکل کر پوری دنیا میں تہلکہ مچا دیا تھا۔

عام لوگوں کو شاید اس بات کا علم نہ ہو کہ فلسفہ، سائنس اور انسانی نفسیات کے بانیوں اور عالمی ادیبوں میں سے چند قابل ذکر لوگ جیسے، نطشے، فرائیڈ، آئن سٹائن، ارنسٹ، ولیم فاکنر، ژاں پال سارتر، کافکا، ورجنیا وولف اور گیبرئیل گارسیا جیسے عظیم دماغ بھی دوستوفسکی کے نہ صرف متعرف تھے بلکہ کسی حد تک نظریات سے متاثر بھی ہوئے تھے۔

سگمنڈ فرائڈ نے دوستوفسکی کے ناولوں پر تجزیاتی مضامین لکھے، کرامازوف برادران ناول اور سگمنڈ فرائیڈ کو پڑھ لیں آپ جان جائیں گے کہ اس ناول اور فرائیڈ کی فلاسفی کا کتنا گہرا تعلق ہے۔

نطشے نے کہا کہ میں متاثر کن حد تک دوستوفسکی کا شکر گزار ہوں، خواہ اس کے کئی نظریات میری گہری جبلت کے خلاف کیوں نہ ہوں، وہ واحد ماہر نفسیات ہے جس سے اس نے بہت کچھ سیکھا، اور یہاں تک کہ اس نے اسے اپنی زندگی میں ہونے والی بہترین چیزوں میں سے ایک سمجھا۔ یہاں تک کہ البرٹ آئن سٹائن کو کہنا پڑا، دوستوفسکی نے مجھے کسی بھی سائنسدان سے زیادہ متاثر کیا ہے، حتیٰ کہ گاؤس جیسے ذہین دماغ کو بھی اس نے پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اور امریکی مصنف ارنسٹ ہیمنگوے نے کہا تھا کہ دوستوفسکی کی تخلیقات کو پڑھنے سے آپ کی روح میں جو کچھ ہے اسے اس طرح جھنجھوڑتا ہے کہ آگہی کی ایک لہر نزاکت اور پاگل پن، تقدس اور شیطانیت کے درمیان فلسفے کو بدل کر رکھ دیتی ہے۔

تو آپ یقین کر سکتے ہیں کہ ایسا آدمی جس نے موت کو شکست تسلیم کرتے دیکھا ہو اور جس کا ایک زمانہ متعرف ہو، وہ پوری ذمہ داری کے ساتھ جانتا تھا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے جب اس نے کہا:

"امید کے بغیر زندہ رہنے کا مطلب جینا چھوڑ دینا ہے"۔

اور کہا کہ انسانی وجود کا راز صرف زندہ رہنے میں نہیں ہے، بلکہ زندہ رہنے کے لیے مقصد تلاش کرنے میں ہے۔ لیکن یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ آپ زندہ بھی ہوں اور آپ کے پاس سنانے کے لیے کوئی کہانی نہیں ہے؟

Check Also

Muasharti Zawal

By Salman Aslam