Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Toqeer Bhumla
  4. Tamashe Se Lutf Uthayen

Tamashe Se Lutf Uthayen

تماشے سے لطف اٹھائیں

10 دسمبر 1914 کی شام تقریباً 5: 30 بجے ویسٹ اورنج، نیو جرسی میں ایک زبردست دھماکہ ہوا جس کے نتیجے میں وسیع و عریض تجربہ گاہ کی عمارت کے اندر آگ بھڑک اٹھی۔ آگ بہت بڑی تھی جس نے دیکھتے ہی دیکھتے اس تجربہ گاہ کے تمام کاغذات، تحقیقی مواد اور آلات کو خاکستر کرنا شروع کر دیا۔

لگ بھگ 70 سال کی عمر کا بوڑھا شخص تباہی مچاتے ہوئے شعلوں کو چپ چاپ دیکھ رہا تھا۔ وہ بوڑھا شخص اس تجربہ گاہ کا مالک تھا مگر حیرت انگیز طور پر اس کے چہرے پر پریشانی کی ایک رمق تک نہ تھی۔ اس کا جواں سالہ بیٹا اس سانحے کا مشاہدہ کرنے کے لیے بھاگتا ہوا آیا اور کہنے لگا: "او خدایا یہ کیا آفت ٹوٹ پڑی ہے، میرے والد کی زندگی بھر کی جمع پونجی کو بے رحم آگ نے نگل لیا ہے" وہ ہانپتے کانپتے ہوئے اپنے والد کے پاس پہنچا کہ انہیں وہاں سے بحفاظت نکال لے، کیوں کہ وہ ڈر گیا تھا کہ نجانے یہ آفت ان کے ساتھ کیا کر سکتی ہے۔

تاہم، حیران کن بات یہ ہے کے بیٹے نے دیکھا کہ وہ شخص جو اپنی زندگی کی جدوجہد کو اپنے سامنے جلتے ہوئے دیکھ رہا ہے اس کے چہرے پر پریشانی کی بجائے ایک خاموش مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی، اس سے پہلے کے بیٹا کوئی سوال کرتا، بوڑھا شخص کہنے لگا "جاو اپنی ماں اور اس کی سہیلیوں کو یہاں لے آؤ، یہ انوکھا منظر دیکھنے کا موقع بار بار نہیں ملتا"۔

بیٹا یہ سن کر ہکا بکا رہ گیا، اس نے سوچا میرے والد نے شاید ایسی آگ پہلے کبھی نہیں دیکھی ہے۔

اور اس ہولناک تباہی کے اثرات نے انہیں متاثر کیا ہے، لیکن بوڑھے شخص نے اسے بتایا کہ "وہ بخوبی جانتا ہے کہ اس کے دماغ میں اس وقت کیا چل رہا ہے، اور وہ کیا کہہ رہا ہے"، " سنو ہمارے پاس ایک موقع ہے گزشتہ کل کی غلطیوں سے پاک نئے کل کی نئی شروعات کا"۔

وہ بوڑھا شخص مشہور و معروف سائنسدان، موجد اور کاروباری شخص تھامس ایڈیسن تھا، جس نے تاریکیوں کے اندر روشنی پھیلانے کا عزم کر رکھا تھا۔

بعد ازاں، آگ لگنے کے مقام پر، ایڈیسن کے حوالے سے نیویارک ٹائمز میں کہا گیا، کہ صحافی نے جب پوچھا اب تو سب کچھ تباہ و برباد ہوگیا ہے تو کیا اب وہ ہمت ہار دے گا اور جتنی ایجادات کر چکا ہے ان پر اکتفا کر لے گا؟

"ایڈیسن نے صحافی کو جواب دیتے ہوئے بتایا کہ وہ آگ لگنے سے لے کر افراتفری پر قابو پانے تک جائے وقوعہ پر مسلسل موجود رہنے سے تھک چکا تھا اور اگرچہ اس کی عمر 67 سال سے زیادہ ہے، لیکن وہ کل سے ہی از سر نو تعمیر و تحقیق کا کام شروع کر دے گا"۔

وہ اپنی بات پر قائم رہا اور اپنے کسی ملازم کو برطرف کیے بغیر اگلی صبح فوری طور پر دوبارہ تعمیر شروع کر دی۔

کیا صحافی کے سوال کا کوئی اور قابل عمل جواب تھا؟

یقینی طور پر، ایڈیسن رو سکتا تھا، غصے میں بال نوچتے ہوئے چیخ چلا سکتا تھا، یا افسردگی کی حالت میں خود کو اپنے گھر میں بند کر سکتا تھا۔ لیکن اس کی بجائے، اس نے مسکرا کر اپنے بیٹے سے کہا کہ تماشے سے لطف اٹھاؤ۔

آفات کے فلسفے کو سمجھنے اور ان کو قبول کرنے کے لیے تھامس ایڈیسن کی کہانی بہت اہم ہے۔

عظیم کام کرنے کے لیے، ہمیں سانحات اور ناکامیوں کو برداشت کرنے کے قابل ہونا چاہیے، جو کچھ ہم کرتے ہیں اور جو کچھ ہماری زندگیوں کے نصاب میں شامل ہے، اچھے اور برے ہر قسم کے حالات سے محبت کرنی ہوگی۔ ہمیں ہر ایک چیز میں خوشی تلاش کرنا اور خوشی ایجاد کرنا سیکھنا ہوگا۔

ہم سب قسمت کے جال میں پھنسے ہوئے پھڑ پھڑاتے پنچھی ہیں، کیونکہ ہماری زندگیوں میں ہمارا سامنا بدقسمتی سے ضرور ہوتا ہے، کل کیا ہوگا درست طور پر کسی بھی چیز کی پیش گوئی کوئی بھی نہیں کرسکتا۔

جس سے ہم محبت کرتے ہیں وہ کسی بھی لمحے مر جائے گا، جس پر ہم بھروسہ کرتے ہیں وہ کسی بھی وقت دھوکہ دے گا، اور جس چیز کی ہمیں امید اور ضرورت ہے وہ بے حد احتیاط اور رازداری کے باوجود ضائع ہو جائے گی۔ مگر ہر حال میں بھروسہ قائم رکھنا ہے کہ آنے والا کل اچھی خبر لے کر آئے گا۔

زندگی ہمیں تاش کے پتوں کی طرح بانٹتی ہے، اور سچ تو یہ ہے کہ جیتنے والا صرف وہ نہیں ہوتا ہے جس کے پاس اچھے پتے ہوں، بلکہ وہ جو برے پتوں کے ساتھ بھی اچھا کھیل سکے۔۔

Check Also

Raston Ki Bandish

By Adeel Ilyas