Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Toqeer Bhumla
  4. Sooraj Or Behshat (2)

Sooraj Or Behshat (2)

سورج اور بہشت 2

ایک رات میں لکڑی سے بنے پرانے صوفے پر لیٹا ہوا تھا۔ پاس ہی سوسن کی ماں قالین پر بیٹھی سوسن کی جلی ہوئی جلد کا علاج کرتے ہوئے خبریں دیکھ رہی تھی۔ وہ اپنی بیٹی کے چہرے پر ٹھنڈی پٹیاں لگاتی اور اسے زیادہ پانی پینے کو کہتی۔ لڑکی کی حالت ابتر ہوچکی تھی۔ اسی دوران بجلی چلی گئی اور عورت نے لالٹین جلائی، پھر گھر کے صحن میں فون کرتے ہوئے ادھر سے ادھر چکر لگانے لگی۔ سوسن نے ٹیلیویژن والے میز سے ایک موٹی کتاب اٹھا لی۔

گھر میں صرف دو کتابیں تھیں۔ قرآن اور کہانیوں کی کتاب، قرآن ورثے میں چلا آرہا تھا، اور سوسن کے والد نے اس کے لیے کہانیوں کی کتاب بطور تحفہ خریدی تھی جب وہ دس سال کی تھی۔ اسکی ماں جب لوٹی اور سوسن کے قریب بیٹھی، تو صاف نظر آرہا تھا کہ وہ خوف اور تنہائی سے ٹوٹ چکی تھی اور اپنی پریشانیوں سے مغلوب ہوچکی تھی۔ سنو، ماں، سوسن نے کہا، میں تمہیں یہ کہانی پڑھ کر سناتی ہوں .

شمس الدین ایک ظالم بادشاہ تھا، وہ عیش و مستی اور خوشامدیوں میں گھرا ہوا اپنی رعایا کے مسائل سے لاعلم تھا، اس کے پاس ایک ہاتھی تھا جسے وہ بہت پسند کرتا تھا، اس لیے کسی کو اسے نقصان پہنچانے یا روکنے کی اجازت نہیں تھی۔ ہاتھی ہروقت گلیوں میں گھومتا رہتا تھا۔ اور اپنے راستے میں آنے والی ہر چیز کو تہس نہس کردیتا تھا۔ ظالم بادشاہ کے قہر کے خوف سے لوگ ہاتھی کو کچھ کہہ نہ سکتے تھے، اس لیے ایک دن شہر کے باشندے اکٹھے ہوئے اور فیصلہ کیا کہ بادشاہ سے مطالبہ کریں کہ وہ ہاتھی کو زنجیر ڈال کر رکھا کرے یا اسے سلطنت سے نکال دے۔

اس بات پر جب اتفاق ہوا تو اس شہر کے عمائدین عوام کے ساتھ محل میں داخل ہوئے، جب بادشاہ انہیں ملنے کے لیے اپنے محافظوں اور سپاہیوں کے ساتھ محل سے نمودار ہوا تو رعب و دبدبے کو دیکھ کر لوگوں کو خوف اور دہشت نے جکڑ لیا۔ وہ سب الٹے قدموں بھاگنے ہی والے تھے کہ بادشاہ کے دربانوں نے محل کے دروازے بند کر دیے، اب تمام لوگ خوف کے مارے ایک دوسرے کو کہنے لگے کہ وہ بادشاہ سے بات کرے، بادشاہ نے جب یہ سب دیکھا تو غصے سے کہنے لگا یہ سب کیا ہے اور تم لوگ یہاں کیوں اس طرح بدحواس ہوئے پھرتے ہو؟

ان میں سے ایک بڑا شیخ ہمت کرکے بولا کہ بادشاہ معظم وہ آپ کا ہاتھی. "پھر وہ یہ سوچ کر خاموش ہو گیا کہ دوسرے بھی اس کے ساتھ کھڑے ہوکر شکایت کریں گے، لیکن جب اس نے اردگرد دیکھا تو خود کو تنہا پایا ۔ شمس الدین نے غصے اور بے تابی سے کہا:" میرے پیارے لاڈلے ہاتھی کو کیا ہوا؟ جلدی بولیں! "شیخ نے اپنی پریشانی سے نکلنے کے راستے کے بارے میں سوچا، تو اس نے بڑے دکھ کے ساتھ کانپتے ہوئے کہا:"بادشاہ معظم ہاتھی تنہائی محسوس کر رہا ہے، جناب، تو کیا آپ اس کو خوش ​​کرنے کے لیے دوسرا ہاتھی نہیں لائیں گے؟ "

شمس الدین نے قہقہہ لگایا اور کہا: "تم ٹھیک کہتے ہو، مجھے کبھی اس کے متعلق خیال ہی نہیں آیا. اے میرے عقلمند وزیر! جلد از جلد دوسرا ہاتھی لاؤ، وزیر!"بادشاہ کے حکم پر ایک اور ہاتھی لے آیا، اور یوں ایک دن شہر کے مکینوں کی تکلیف جب پہلے سے بڑھ گئی، تو انہوں نے دوبارہ بادشاہ سے شکایت کرنے کا فیصلہ کیا ... اور پہلے کی طرح، انہوں نے شمس الدین سے ایک اور ہاتھی لانے کو کہا۔

لوگ ہر بار عہد کرتے قسمیں اٹھاتے، لیکن جیسے ہی محل میں بادشاہ کے روبرو پہنچتے تو ہر بار ایک نیا ہاتھی لانے کا جواز فراہم کر آتے، یہاں تک کہ شہر ہاتھیوں سے بھر گیا، لوگوں نے تنگ آکر وہاں سے کسی دوسری سلطنت جانا شروع کردیا، اور یوں شہر کے لوگ ایک کے بعد ایک کرکے وہ جگہ چھوڑ گئے ... یہاں تک کہ شہر اپنے لوگوں سے خالی ہو گیا، اور یہ بادشاہ کے ہاتھیوں کی افزائش گاہ بن گیا۔

ماں، اس قصے کے بارے میں تمھارا کیا خیال ہے؟"میں نہیں جانتی، میری بیٹی۔ میں نہیں جانتی ۔ ہمارے پاس صرف خدا ہے۔"سوسن نے کتاب پڑھنا جاری رکھی،اور ماں کچن میں گئی اور کچھ روٹی اور خوبانی کا جام لے کر واپس آئی۔ اچانک، ہم نے گاؤں میں کہیں قریب ہی گولیوں کی تڑتڑاہٹ سنی۔ خاتون نے لالٹین کے شعلے کو فوراً بجھا دیا۔ میں پلک جھپکتے باہر نکل گیا۔ پانچ حریت مخالف جنگجو ایک پائلٹ کا پیچھا کر رہے تھے۔ ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے اس کے ہیلی کاپٹر کو مارگرایا تھا، اور انہیں پھر وہاں یہ مل گیا جہاں وہ اپنے پیراشوٹ کے ساتھ اترا تھا۔

پائلٹ کے پاس صرف ایک پستول تھا۔ ان افراد کے پاس کلاشنکوفیں تھیں اور وہ پک اپ میں اس کا پیچھا کر رہے تھے۔ پائلٹ تین گولیاں چلانے کے بعد سوسن کے گھر کے سامنے سے گزر گیا۔ میں گھر کے اندر واپس چلا گیا۔ سوسن کی ماں گھبرا گئی۔ اس نے الماری سے بندوق نکالی اور اپنی بیٹی کے پاس بیٹھ گئی۔ میں دوبارہ پائلٹ کی پیروی کرنے لگا۔ وہ جیسے ہی ایک گھر میں داخل ہوا ان جنگجوؤں نے اسے گھیر لیا، اور اسے کہا کہ وہ ہتھیار ڈال دے۔

اس کے پستول کی گولیاں ختم ہونے کے بعد اس کے پاس اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ وہ چاندنی رات تھی۔ پائلٹ سر کے اوپر ہاتھ رکھ کر ہتھیار ڈال کر باہر نکل آیا۔ اب وہ چاروں طرف سے مرد جنگجوؤں میں گھرا ہوا تھا . ایک نے اسے لات ماری تو وہ زمین پر گر گیا، پھر اسے دوبارہ اٹھنے کا حکم دیا۔ ان میں سے ایک نے اس پر چاقو سے وار کیا، پھر دوسروں نے بھی اس پر وحشیانہ تشدد کیا۔ پائلٹ اپنے خون کے تالاب میں گر گیا۔

ان میں سے ایک شخص گاڑی سے پٹرول لے کر آیا، جب وہ اسے زندہ جلا رہے تھے تو ان کا ایک ساتھی موبائل نکال کر پائلٹ کے جل کر راکھ ہونے کی فلم بندی کرنے لگا۔ سب نے خوشی سے نعرہ تکبیر بلند کیا۔ پھر وہ اپنی گاڑی کی طرف چلے گئے، گاڑی کی کھڑکیوں سے وہ اندھا دھند فائرنگ کرتے ہوئے، خوشی سے چلاتے ہوئے۔ ام سوسن کے گھر کے پاس سے گزرے اور جب انہوں نے کتوں کی بڑی تعداد کو گھر کے سامنے بندھے ہوئے دیکھا تو ان میں ایک نیا جوش و خروش پیدا ہوا۔وہ گاڑی سے باہر نکلے اور کتوں پر گولیوں کی بارش کردی۔

سوسن کی ماں نے سوچا کہ وہ عصمتیں لوٹنے والے "بھوت" ہیں، اور عنقریب وہ گھر میں گھس جائیں گے۔ دیہاتی خاتون نے سوسن کے سر میں گولی ماری، اور پستول کو اس کے منہ میں ٹھونس دیا۔ بندوق بردار گھر کے اندر سے گولی کی آواز نہیں سن سکتے تھے، کیونکہ باہر کلاشنکوف کی گولیوں اور کتوں کے بھونکنے سے زبردست شور مچا ہوا تھا۔ آخری کتے کے مرنے کے بعد خاموشی چھا گئی۔ ان لوگوں نے اپنی گاڑی گاؤں سے باہر جانے والے رستے پر ڈال دی۔ گھر کے اندر دیہاتی عورت گھٹنوں کے بل ہاتھوں میں پستول لیے سوسن کو دیکھنے کی ہمت کیے بغیر سر جھکائے بیٹھی ہوئی تھی، مردہ سوسن کی جلی ہوئی جلد، خون کے بڑے بڑے داغوں سے گھری ہوئی تھی۔

عورت صبح سویرے سورج نکلنے تک اپنی جگہ پر رہی۔ بڑی دیر سے میں مردہ کتوں کا مشاہدہ کرنے میں مصروف تھا۔ میں گولیوں سے چھلنی ایک کتا دیکھ رہا تھا جس کے جسم میں ابھی تک چند سانسیں اٹکی ہوئیں تھیں۔ میں نے سوچا کہ اس کی روح بھی باہر آئے گی اور میرے ساتھ انتظار میں شامل ہوگی۔ دیہاتی عورت نے گھر کا باہر والا دروازہ کھولا۔ پستول اس کے ہاتھ میں تھی۔ وہ بھاگتی ہوئی جارہی تھی۔ میں اس کے پیچھے گیا۔ وہ کپاس کے کھیت میں داخل ہوئی، اور سفید کپاس کے گھیرے میں حیرت کی تصویر بنی چلتی رہی۔ میں اس کے پیچھے جانا چاہتا تھا اور دیکھنا چاہتا تھا کہ کیا وہ خود کو گولی مارنے والی ہے، لیکن اس نے گاؤں کی سرحد عبور کی، اور طلوع ہوتے آفتاب کی طرف نکل گئی..

گاؤں میں کئی واقعات ہوئے۔ اتحادی افواج نے گاؤں پر دھاوا بول دیا۔ پھر مجاہدوں کے دستے شدید لڑائیوں کے بعد گاؤں کا کنٹرول سنبھالنے کے لیے لوٹے، ایسا گاؤں جس میں خون کی ندیاں، کٹے ہوئے سر اور دھڑ باقی تھے۔ بین الاقوامی انسانی تنظیمیں شواہد کی تلاش میں آئیں۔ تنظیمیں دونوں فریقوں کے قتل عام کی گنتی کر رہی تھیں، گویا وہ دونوں فریقوں کے مقاصد کو گننے کا فیصلہ ہے کہ کس نے زیادہ انسان قتل کیے۔ ایک خونی میچ جس کی بین الاقوامی برادری دور سے نگرانی کرنے کی کوشش کر رہی ہے، اسلحہ کی تجارت، جھوٹ پھیلانے اور مگرمچھ کے آنسوؤں کے سوا کچھ بھی نہیں۔

میں اس گاؤں میں پہنچنے سے پہلے ہی شہید ہو گیا تھا. میں خدا کے نام نہاد مجاہدوں جو خود کو خدا کے بیٹے کہتے تھے ان سے لڑ رہا تھا۔ میں ایک سنائپر تھا۔ ڈیڑھ سال سے، میں حکومت کے قاتلوں کو کاٹ رہا ہوں۔ آخر کار، انہوں نے جنگی طیارے سے میزائل مار کر میرے ٹھکانے کو نشانہ بنایا۔ بعد میں انہوں نے میرا چیتھڑوں میں بٹا ہوا جسم نکال کر اسے لات ماری اور اس پر سب نے مل کر پیشاب کیا۔

میں نے اپنی لاش کی توہین کرنے کی پرواہ نہیں کی۔ میں اپنی موت سے خوش تھا۔ میں اپنے رب سے اچھے چہرے سے ملوں گا۔ جیسے ہی میں اپنے جسم سے آزاد ہوا، میرے پہلے سے مرے ہوئے بھائی میرے پاس آئے جن کے پاس شاید روحوں کو منظم کرنے کا کام تھا۔وہ مجھے اس گاؤں میں لے گئے۔ انہوں نے مجھے اکیلا چھوڑ دیا، اور کہا انتظار کرو، ہم تمہیں جنت میں بھیج دیں گے۔ اس گاؤں کی حدود کو مت چھوڑنا۔ مجھے نہیں معلوم کہ بھائی خود انتظار کر رہے ہیں، یا کہاں ہیں .

بہت عرصہ ہو گیا اور میں ابھی تک انتظار کر رہا ہوں۔ میں ویران گاؤں میں گھومتا ہوں۔ میں گاؤں والوں کے کپڑے، کھانے کے برتن، بچوں کے کھلونے اور ان کے مردہ پالتو جانوروں کی ہڈیاں دیکھتا ہوں۔ کپاس کے کھیت بھی انسانوں کی طرح مر گئے۔ میں بوریت محسوس کر رہا تھا۔ پھر اسی اداسی نے مجھے اپنی مخفی صلاحیتوں کی حقیقت دکھائی۔ میں نے پرندوں کے ساتھ شاخوں اور چھتوں پر جانا شروع کر دیا۔

میں درختوں سے گرنے والے پتوں کی طرح لڑکھڑاتا ہوں۔ میں ہوا کے ساتھ کھیلتا ہوں، کیڑوں کے ساتھ رینگتا ہوں اور کیڑوں سے جھگڑا بھی کرتا ہوں۔ میں کچھ بھی کر سکتا ہوں، بغیر کسی پریشانی کے، کوئی بھوک نہیں، کوئی خوف نہیں۔ تنہائی نے مجھے مزید پریشان نہیں کیا، میری پچھلی زندگی کی آخری یادیں دھندلا رہی تھیں۔ اور ایک صبح، جب میں سوسن اور اس کی والدہ کے گھر میں سیب کے درخت پر بیٹھا تھا، اچانک میرے ذہن میں ایک خیال آیا جس نے میرا انتظار ختم کردیا، جنت جس کا وعدہ ہے اور میں جس کے انتظار میں ہوں، اگر یہ اجڑا گاؤں وہی جنت ہوا تو کیا ہوگا؟

Check Also

Baat Kahan Se Kahan Pohanch Gayi, Toba

By Farnood Alam