Sooraj Aur Bahisht (1)
سورج اور بہشت (1)
انہوں نے مجھے اکیلا چھوڑ دیا!اور کہا، آپ یہاں ہی رکیں . ہم آپ کو بعد میں فون کریں گے ..جاتے ہوئے تاکید کی کہ گاؤں کی حدود سے ہرگز باہر مت جانا.ایسا لگتا تھا کہ عجلت میں لوگوں نے حال ہی میں گاؤں چھوڑا تھا۔ بکریاں اب بھی ادھر ادھر بھٹک رہی تھیں۔ میں نہیں جانتا کہ میں کب تک یہاں انتظار کروں گا۔ اس لیے میں وقت گزارنے کے لیے لاوارث گھروں کے اندر گھومنے لگا۔ میں شدید تھکن کے حصار میں تھا۔ اور مجھے کچھ خبر نہیں کہ نیند ابھی بھی میری نئی زندگی کے دائرے میں ہے یا نہیں۔ میں نے ایک گھر کی چھت پر جا کر ادھر ادھر دیکھا۔
جنگ وجدل کا دھواں پڑوسی قصبوں سے اٹھ رہا تھا، اور دو فوجی ہیلی کاپٹر افقی خط عبور کر رہے تھے۔ کپاس کے کھیتوں نے گاؤں کو چاروں طرف سے گھیرا ہوا تھا۔ میں اس سے پہلے کبھی بھی کپاس کے پھول نہیں دیکھ پایا تھا۔ میں نے انہیں دستاویزی فلموں یا ڈراموں میں دیکھا ہوگا۔ لیکن مجھے بالکل یاد نہیں! میں نے اپنی زندگی ایک بیکری، پھر ٹیکسی ڈرائیور اور آخر کار بطور جیل سنتری کام کرتے ہوئے گزاری تھی. میں اپنی آخری نوکری سے بھاگ گیا تھا، جب انقلاب برپا ہوا، میں مزاحمت کاروں میں شامل ہوا اور پھر اپنی آخری سانس تک لڑا۔
کپاس کے پھول مصنوعی برف کے ٹکڑوں کی مانند دکھائی دیتے تھے، ورنہ چمکتا ہوا سورج ان تمام کھیتوں کو اب تک دھو دیتا۔ پھر میں نے ایک لڑکی کو قریبی مکان کی چھت پر بیٹھے ہوئے دیکھا۔ میں اس کے پاس چلا گیا۔ وہ یقینی طور پر مجھے نہیں دیکھ سکتی۔ اس کی جلد سورج کی بہت زیادہ تپش سے جل کر سیاہ ہوگئی تھی۔ لکڑی کی ایک چھوٹی سی تپائی پر بیٹھی ہوئی وہ اپنے لمبے بالوں کو سبز کنگھی سے کنگھی کر رہی تھی۔ ایک عورت نے گھر کے صحن سے پکارا،"سورج کے نیچے بیٹھی رہو ... اور اپنی جگہ سے ہلنا مت!"لڑکی نے ایک آہ بھری اور اپنے چہرے کو اپنے ہاتھوں سے ڈھانپ لیا۔میں عورت کے پاس چلا گیا۔
اس کی سوجی ہوئی آنکھوں کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ وہ کافی دنوں سے جی بھر کر سوئی نہیں یا پھر اسے نیند ہی نہیں آتی ہے۔ وہ تیس کی دہائی کے وسط میں تھی۔ ایک مضبوط جسم کی دیہاتی عورت جس کی حرکات و سکنات توانائی سے بھرپور مگر قدرے خوفزدہ تھیں۔ میں چھت سے اتر کر گھر کے صحن میں چلا گیا، اور اس کے پاس بھیڑ کی اون سے ڈھکی ہوئی کرسی پر بیٹھ گیا۔ وہ ٹیلیویژن پر خبریں دیکھ رہی تھی۔ ایک ہی طرح کی خبریں تھیں، حکومتی افواج اور مزاحمتی جوانوں کے مابین وحشیانہ اور خوفناک لڑائیوں کی، گلے کاٹنے کی، خواتین کی عصمت دری کی، بے گھر ہونے والے خاندانوں کی، جل کر راکھ ہونے، حتیٰ کہ کچھ نے مرنے والوں کے جگر تک چبا لیے تھے۔
میں نے ان وجوہات کے بارے میں سوچنا شروع کیا جنہوں نے عورت اور لڑکی کو جانے سے روکا۔ زیادہ تر لوگوں نے اپنے شہر اور دیہات چھوڑ کر پڑوسی ممالک میں پناہ لے لی تھی۔ باہر کتوں کی بے چین بھونکنے کی آوازیں آرہی تھیں۔ میں گھر سے باہر نکلا اور دیکھا باہر کے دروازے کے سامنے بیس سے زیادہ کتے بندھے ہوئے تھے، میں جب اس عورت کے گھر کے آنگن میں واپس آیا تو وہ چھت پر بیٹھی ہوئی لڑکی کو پکار رہی تھی."سوسن ... اب نیچے اتر آؤ ... چاول اور سوپ باورچی خانے میں رکھے ہیں۔" یہ کہہ کر وہ عورت گھر سے باہر چلی گئی،
سوسن نے چھت کی منڈیر پر بنے جنگلے سے اس عورت کو گھر سے باہر جاتے ہوئے دیکھا۔ عورت رسی اٹھائے ہوئے تھی۔ میں بھی اس کے پیچھے ہولیا۔ دور دراز سے اتحادی افواج کی پڑوسی قصبوں پر گولے داغنے والی توپوں کی آوازیں پہنچنے لگیں۔ عورت ایک لاوارث گھر کے دالان میں داخل ہوئی۔ وہاں صرف ایک خوفزدہ کتا اس طرح گھوم رہا تھا، جیسے وہ پاگل ہو گیا ہو۔ عورت نے اپنی جیب سے مرغی کی یخ بستہ ران نکال کر کتے کے سامنے پھینک دی۔ اس نے اسے شوق سے کھا لیا۔ عورت نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا، اور گلے میں رسی باندھ کر اسے باہر لے گئی۔
میں لڑکی کے پاس واپس چلا گیا۔ اس نے اپنا سر گھر کے صحن میں پانی کے نل کے نیچے رکھا ہوا تھا، تاکہ سورج کی گرمی سے اپنا سر ٹھنڈا کر سکے۔ وہاں سے آٹھ کر وہ سیب کے درخت کے سائے میں جا بیٹھی اور اچانک بلک بلک کر رو پڑی۔ عورت نے کتے کو لاکر گھر کے سامنے دوسرے کتوں کے ساتھ باندھ دیا، اور خاموشی سے سنسنان گاؤں میں گھومنے لگی۔ میں سیب کے درخت کی شاخوں پر جا بیٹھا، جو مجھے یہاں چھوڑ گئے تھے ان کی واپسی کے بارے میں سوچتا رہا تاکہ مجھے یہاں سے دوسری طرف جانے میں مدد ملے۔
مجھے امید ہے کہ وہ دیر نہیں کریں گے! میں نے پرندوں اور سیبوں اور لڑکی کے گیلے بالوں پر غور کیا۔ میں اس زندگی کی یادوں کا صرف ایک ذخیرہ الفاظ باقی ہوں جسے میں صرف چونتیس سال ہی گزار پایا تھا۔ یہ کوئی زیادہ وقت نہیں ہے۔ لیکن مجھے پچھتاوا نہیں ہے۔ میں بہادر تھا، اور میرا نام کئی نسلوں تک یاد رکھا جائے گا۔ عورت گھر کے صحن میں واپس آئی اور سوسن کو کھانے کے لیے کہا۔
لڑکی غصے سے چیخ اٹھی، اور پرندے خوفزدہ ہو کر اڑ گئے۔ اس نے روتے ہوئے اپنے گال پر تھپڑ مارتے ہوئے کہا کہ وہ نہیں کھائے گی اور سورج کے شعلوں سے مرنے کے بجائے بھوک سے مر جائے گی۔ تم ایک ظالم اور پاگل ماں ہو! میں مرنا چاہتی ہوں اور اس اذیت سے نجات حاصل کرنا چاہتی ہوں ...عورت سوسن کے قریب آئی اور اس کا بازو مضبوطی سے پکڑ لیا۔ وہ اسے گھسیٹنے یا مارنے والی تھی، لیکن اچانک وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی اور درخت کے تنے سے ٹیک لگا کر اس کے پاس بیٹھ گئی۔
سوسن نے اپنا سر اپنی ماں کی گود میں رکھ دیا۔ وہ پندرہ سال کی دبلی پتلی اور خوبصورت لڑکی تھی، اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سا تاثر تھا، گویا وہ انتہائی بلندیوں سے کسی نامعلوم جگہ پر غوطہ لگانے والی ہے۔مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے!خاتون کے سیل فون کی گھنٹی بجی اور وہ بات کرتے ہوئے دوسری طرف فون کرنے والے سے اپنے شوہر کو ڈھونڈنے کی درخواست کر رہی تھی۔ میں فون کرنے والے کی شناخت جاننا چاہتا تھا، اور میں اس تک پہنچ سکتا تھا۔ ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا میرے لیے بےحد آسان تھا، لیکن مجھے یہاں پابند کرنے والوں نے کہا تھا کہ گاؤں کی حدود سے باہر نہ جانا۔ میں قوانین نہیں توڑ سکتا۔ میں جلد ہی یہاں سے چلا جاؤں گا اور یہ سب ختم ہوجائے گا۔
دن اور ہفتے یکسانیت میں گزر گئے۔ میرے پاس اس ویران گاؤں میں سوسن اور اس کی ماں کے سوا کچھ نہیں تھا۔ اور ان دونوں کی زندگی میں بھی کچھ بھی زیادہ نہیں تھا۔ ماں سوسن کو گھر کی چھت پر سورج کے سامنے بیٹھنے پر مجبور کرتی رہتی یا پھر اپنے شوہر کو ڈھونڈنے کے لیے وقتا فوقتا کال کرتی۔ وحشی فوجیں کسی بھی وقت گاؤں پر دھاوا بول سکتی تھیں۔ لیکن کون پرواہ کرتا ہے۔ جنگ اور زندگی مجھے مزید خوفزدہ نہیں کرتی، میں آزاد ہو گیا ہوں، اور بس مزید صرف ایک قدم باقی ہے!
میں نے آخر میں سوچا کہ میں سمجھ گیا ہوں کہ سوسن اور اس کی ماں کے درمیان کیا چل رہا ہے۔ عورت نے اپنے شوہر کی وجہ سے گاؤں نہیں چھوڑا۔ اس کے خاوند نے گاؤں چھوڑنے سے کچھ دن پہلے اسے فون کیا تھا اور کہا کہ وہ اس کا انتظار کرے۔ اس نے اسے بتایا کہ وہ بھاگ کر ان کے پاس پہنچ آئے گا۔ وہ قریبی شہروں میں سے ایک میں مخالف عسکری طاقتوں کے ساتھ لڑ رہا تھا۔ لیکن پھر اچانک اس کا رابطہ اپنے شوہر سے ختم ہو گیا۔ اب وہ فون کا جواب نہیں دیتا ہے، اور نہ ہی اس کی کوئی خیر خبر ہے، سوسن کی ماں اپنے شوہر کے بغیر دوسرے کسی ملک جانے سے ڈرتی تھی۔
یہ دیہاتی عورت نادیدہ خوف کی وحشت میں مبتلا ہوچکی تھی۔ وہ اب ایسے ہی تھی جیسے کوئی پالتو جانور اچانک اپنے مالک سے بچھڑ کر خونخوار درندوں کے درمیان پہنچ جائے، اس سے وہ بے خوفی والی زندگی چھن گئی ہے جو اس نے ساری زندگی گاؤں میں گزاری ہے، اور اب وہ ایک خوفناک خیال کے زیر اثر رہ رہی ہے۔ اس نے عسکریت پسندوں کے جرائم کے بارے میں سن رکھا تھا، انہیں "بھوت" کہا جاتا تھا اور لوگوں نے کہا تھا کہ ان "بھوتوں " نے عورتوں کے ساتھ زیادتیاں کیں ہیں اور اس گھناؤنے فعل کے لیے انہوں نے سفید چہرے والی عورتوں اور لڑکیوں کو ترجیح دی تھی۔ بھوتوں نے تمام پڑوسی دیہاتوں پر دھاوا بول دیا تھا۔
اس کی ماں نے سوچا کہ سوسن کی جلد کو دھوپ میں جلا دینا چاہیے۔ اسے گھنٹوں دھوپ میں بیٹھایا گیا۔ عورت کا خیال تھا کہ سورج سے جلی ہوئی سیاہ جلد عصمت دری کے خلاف آہنی پردہ ہے۔ اگر اس کی جلد جلی ہوئی روٹی کی طرح ہوئی تو شاید اس طرح وہ اس کی بیٹی کو بغیر چھوئے چھوڑ دیں۔ خاتون خانہ نے دیگر احتیاطی تدابیر بھی اختیار کر رکھیں تھیں۔ اس کے پاس بندوق تھی۔ گاؤں کے کتے اس کے گھر کے سامنے جمع تھے۔ شاید یہ ہر اس شخص کو خوفزدہ کرنے کے لیے تھے جو گھر کے قریب بھی جانے کا سوچتا ہے۔ سوسن کے پاس کرنے کے لیے کوئی زیادہ کام نہیں تھا۔ وہ بھی اپنی ماں کی طرح خوفزدہ تھی۔ اس نے ایک سے زیادہ بار بھاگنے کا سوچا لیکن وہ ڈری اور سہمی ہوئی تھی اور اسے کچھ اندازہ نہیں تھا کہ وہ بھاگ کر آخر جائے تو کہاں جائے..