Sabiqa Bharti Safarat Kar Ki Diary Se
سابقہ بھارتی سفارت کار کی ڈائری سے
جنوری 1972 میں بیرونی طاقتوں کے دباؤ پر مجیب الرحمٰن کا ٹرائل مؤخر کردیا گیا ،اور اسے جیل سے نکال کر پی آئی اے کے جہاز میں بٹھا کر لندن روانہ کردیا گیا۔ جیسے ہی یہ خبر عام ہوئی تو بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی نے سوچا ،کہ دنیا کو بتانے کے لیے کہ بھارت، بنگلہ دیش کے متعلق کیا سوچتا ہے، یہ ایک بہترین موقع ہے۔انہوں نے فوراً لندن میں اپنے ہم منصب سے بات چیت کی اور انہیں اس بات پر آمادہ کرلیا کہ شیخ مجیب کو براستہ دہلی بنگلہ دیش جانے دیا جائے، اس کے لیے بھارتی وی آئی پی پرواز کا انتظام کیا گیا، اس کا مقصد دنیا کو بتانا تھا، کہ بنگلہ دیش کے محافظ بھی ہم ہیں اور بنگلہ دیش کو جانے والے تمام رستے اب بھارت سے ہوکر جائیں گے۔
یہ منصوبہ جیسے ہی فائنل ہوا، تو خفیہ ایجنسی را کے چیف نے خبر دی، کہ اس طیارے کو ہائی جیک کرنے کی اطلاعات ہیں ۔اس رپورٹ کے بعد وزیراعظم اندرا گاندھی نے دوبارہ لندن میں بات چیت کی، اور رائل انڈین ایرفورس کا ایک خصوصی جہاز بھیجنے پر رضامندی حاصل کرلی۔اس طیارے میں شیخ مجیب الرحمٰن کے علاوہ صرف ایک اور شخص ہوگا، اور وہ کون ہوگا یہ قرعہ میرے نام نکلا۔ مجھے جیسے ہی کال کرکے بتایا گیا تو میری خوشی کی انتہا نہ رہی، کیونکہ اونلی ونس ان لائف ٹائم موقع مجھے مل رہا تھا۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ سارے بھارت کو چھوڑ کر ،نظر ایک سفارت کار پر کیوں پڑی؟تو اس کی ایک خاص وجہ ہے،
1962 میں شیخ مجیب الرحمٰن نے میرے ساتھ ایک خفیہ ملاقات کی تھی، اس ملاقات میں شیخ مجیب الرحمٰن کے ساتھ ،بنگلہ زبان کے سب سے بڑے اخبار "اتفاق" کے ایڈیٹر تفضل حسین بھی تھے ،جو مانک میاں کے نام سے مشہور تھے۔اس میٹنگ میں مجیب نے ایک خط میرے حوالے کیا تھا، اس خط میں بنگلہ دیش لبریشن سٹرگل کی حمایت اور اس کی راہ میں مشکلات کے خاتمے کے بعد، بنگالیوں کے لیے ایک الگ ملک کو بنانے کے لیے واضح طور پر مدد طلب کی گئی تھی۔ اس خط کے جواب میں اسوقت کے وزیراعظم نہرو نے ایک زبانی پیغام بھیجا ،جس میں ہر طرح کے ممکن تعاون کے وعدے کے ساتھ کہا گیا تھا ،کہ اس جدوجہد کو بنگالی زبان و قوم کی الگ شناخت کی تحریک میں بدل دو ،جو کہ اجتماعی یا مخلوط جمہوریت کی حامی ہو (Pluralism democracy)، جو میں نے شیخ مجیب الرحمٰن تک پہنچا دیا تھا۔
یقینی طور مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان، ایک ہزار کلومیٹر طویل فاصلے سے فائدہ اٹھانے کے منصوبہ بندی ہوچکی تھی۔ اسی گذشتہ خفیہ ملاقات کی وجہ سے مجھے ذمہ داری سونپی گئی ،کہ میں بنگالیوں کے لیڈر کو لندن سے دہلی لیکر آؤں، جہاں وہ ایک مختصر قیام کے بعد ڈھاکہ جائے، تو بھی میں ہمراہ ہی رہوں ۔اس دوران مجھے کچھ ہدایات مل گئیں تھیں ،کہ اس سفر میں شیخ مجیب کے سامنے کیا باتیں رکھنی ہیں اور کیا منوانا ہے یا اس سفر کو کامیاب کیسے بنانا ہے۔مجھے شیخ مجیب الرحمٰن کو لندن سے دہلی تک لے جانے کے لیے ایک طویل ہوائی سفر طے کرنا پڑا تھا۔
پہلے ایک مختصر سا قیام قبرص میں کیا اور اس کے بعد عمان میں، اس کے بعد ہم دہلی پہنچے، رستے میں جب ہم مختلف موضوعات پر گفتگو کررہے تھے تو مجیب الرحمن اپنی نشست سے کھڑے ہوکر بنگلہ زبان میں ایک نغمہ گانے لگے " اے میرے سنہرے بنگال، میں تجھے بے حد چاہتا ہوں " یہ گنگناتے ہوئے شیخ مجیب کی آنکھوں میں اور گالوں پر ایک انوکھی سی چمک تھی۔مجیب کے احترام میں، میں بھی کھڑا ہوکر گنگنانے لگا، کیوں کہ میں اس نغمے کو گانے کا مقصد سمجھ گیا تھا، مجیب کے دل میں تھا کہ یہ گانا بنگلہ دیش کے قومی ترانے کا حصہ ہو۔
جب شیخ نے مجھ سے پوچھا کہ یہ گانا کیسا ہے؟ تو میں نے فوراً کہا اگر قومی ترانہ بنانا چاہتے ہیں تو بہترین ہے ،کیونکہ اسے ایک عظیم ہندوستانی شاعر ٹیگور نے لکھا ہے، جس نے پہلے بھی بھارت کے لیے قومی ترانہ لکھ رکھا ہے۔اسی دوران پائلٹ ہمارے پاس آیا اور ہماری اجازت سے کیمرا نکال کر ہماری تصویر بنائی۔اس کے بعد چند خفیہ باتوں میں سے ایک بات یہ ہوئی، کہ جناب آپ بنگلہ دیش میں، بھارت میں رائج نظام پر پارلیمانی طرز حکومت بناؤ گے۔ اس نے فوراً حامی بھر لی، اور ساتھ ہی پوچھا اس کے پیچھے کیا مقصد ہے؟تو میں نے کہا کہ اس طرح آپ وزیراعظم ہوں گے،اور ہماری خواہش ہے کہ صدر جسٹس ابو سید چوہدری کو بنایا جائے، کیونکہ اس آزادی کی تحریک میں ان کا بڑا کردار رہا ہے۔ مجیب نے اس آئیڈیا کو پسند کیا اور کہا ایسا ہی ہوگا۔
اسے بتایا کہ یہ اندرا گاندھی جی کا ایک ذاتی پیغام اور مشورہ ہے۔ پھر اندرا گاندھی جی کا ایک اور پیغام دیا، کہ ہمارے درمیان ایک دوستانہ بارڈر ہو، ملک کے اندر انڈیا جیسا سیکولر پارلیمانی نظام ہو، ناکہ پاکستان جیسا صدارتی سنٹرلائزاڈ نظام ہو، جس میں جرنیل کسی بھی وقت شب خون مار سکتے ہوں ۔اس کے بعد مجیب الرحمٰن نے کہا ،کہ میں دہلی اتر کر اندرا گاندھی جی سے ملنا چاہتا ہوں، یہ میرا پہلا مطالبہ ہے اور دوسرا مطالبہ یہ ہے، کہ بنگلہ دیش کے اندر بھارتی افواج کے انخلا کی تاریخ کو آگے بڑھا کر، مارچ سے جون میں لے جایا جائے۔اس کے بعد کئی مزید باتیں ہوئیں، جو ملکی راز کی سطح کی ہیں جو میں بتا نہیں سکتا۔
دہلی میں رک کر ،میں نے اپنے کامیاب مذاکرات اور شیخ مجیب کے مطالبات کو بھارتی وزیر اعظم تک پہنچا دیا، جو منظور کرلیے گئے۔اسکے بعد ہم ڈھاکہ پہنچے تو بنگالیوں کا سمندر ،اپنے باپ شیخ مجیب الرحمٰن کے فقیدالمثال استقبال کے لیے اُمڈ آیا۔ اس کے بعد شیخ مجیب الرحمٰن نے وزیراعظم کے لیے حلف اٹھا لیا اور جسٹس ابو سید چوہدری کو صدر بنا دیا گیا۔ شیخ مجیب الرحمٰن نے اپنے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے ایک الگ ملک کی مبارکباد دی اور کہا ، میں نے کہا تھا بنگلہ زبان والو تم مجھے متحد ہوکر دکھا دو، تو میں تمھیں الگ شناخت کا وطن بنا کر دے دوں گا۔