Pension Afsana
پینشن افسانہ
ریٹائرمنٹ کے بعد جس دن مجھے پینشن کی مد میں کچھ رقم ملنی تھی، ٹھیک اس سے اگلے روز میری بیٹی کی یونیورسٹی میں فیس جمع کروانے کی آخری تاریخ تھی۔ ساری زندگی پیٹ کاٹ کر اکلوتی بیٹی کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کی تگ و دو کی تاکہ کل کو اس کا مستقبل مجھ سے بہتر اور روشن ہو۔ اسکی تعلیم پر اٹھنے والے اخراجات کی وجہ سے کئی بار فاقوں اور قرض کی نوبت بھی آئی تھی، اب آخری سال کی فیس اتنی زیادہ تھی کہ بڑی رقم کا بندوبست کرنے کے لیے میرے پاس کوئی چارہ نہیں بچا تھا، تھک ہار کر مجھے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لینے کے سوا کوئی راہ نہیں سوجھ رہی تھی۔
ریٹائرمنٹ کے فیصلے کے بعد مختلف دفاتر میں دھکے کھاتے کھاتے، خدا خدا کرکے سارے کاغذات ہر جگہ سے کلئیر کروا کر جب اکاؤنٹ سیکشن میں پہنچا تو اس سارے عمل میں میرا پورا مہینہ لگ چکا تھا، کبھی فلاں جگہ سے فلاں فارم، کبھی فلاں جگہ سے تصدیق، کبھی فلاں چیز لی تھی وہ واپس کی یا نہیں کی، کبھی چھٹیوں کا حساب اور کبھی سروس کے دوران کرائے گئے علاج معالجے کی تفصیلات، یہ پورا مہینہ جیسے تیسے کرکے گزارا، آج آخری دن تھا، اکاؤنٹنٹ نے جانچ پڑتال کرکے بس ٹھپہ لگانا تھا اور حساب کتاب کا چیک مجھے تھما دینا تھا، بڑی امید تھی کہ آج وقت پر چیک مل جائے۔
تو کل بیٹی کی، تین گنا اضافے کے ساتھ لیٹ فیس جمع کروا سکوں گا۔ اکاؤنٹنٹ کے سامنے فائل سمیت کاغذات کا پلندہ رکھا، اس نے سرسری سی نظر ڈالی، ایک جگہ سرخ پنسل سے چھوٹا سا دائرہ بنایا اور فائل واپس میری طرف سرکا دی، میں نے پریشان ہوکر، ہاتھ کے اشارے سے سوالیہ انداز میں پوچھا کہ کیا؟ تو وہ پان کی پیک میز کے نیچے پڑے اگالدان میں تھوکتے ہوئے کہنے لگا، آپ کا نام تو سہیل احمد خاکسار ہے لیکن یہاں دیکھیں یہاں پر تو محمد سہیل خاکسار لکھا ہوا ہے۔
میں نے کہا او اچھا اس پر تو نہ میں نے دھیان دیا اور نہ ایک میز سے دوسری میز پر بھیجنے والے کلرکوں نے غور کیا تھا، بس ایک جگہ نام غلط ہے تو اسے سفید روشنائی لگا کر درست کردو، اس نے سرخ پینسل سے اس نام کے گرد دوبارہ مگر اب کی بار موٹا سا دائرہ بنایا، فائل مجھے زبردستی تھمائی اور کہنے لگا، خاکسار صاحب نیا فارم لیکر اپنا نام درست کروا کر کل دوبارہ آجائیے گا۔ میں بے بسی کی کیفیت میں وہاں سے اٹھا، فائل بغل میں دبائی اور ایک بار پھر ایک ہی عمارت کے اندر بنے ہوئے بے شمار کمروں میں ادھر سے ادھر بھٹکنے لگا۔
دوبارہ جب فارم لینے والے کاؤنٹر پر پہنچا تو پتا چلا کہ کلرک صاحب کے گھر میں کوئی ایمرجنسی ہو گئی تھی، وہ آج اچانک رخصت لیکر گھر چلے گئے ہیں، پوچھا فارم کون دے گا، پتا چلا کہ موصوف جلدی میں سرکاری چابی اپنے ساتھ ہی گھر لے گئے ہیں۔ پریشان ہوکر مختلف میزوں کے پیچھے بیٹھے ہوئے بابوؤں کے پاس گیا، منت ترلہ کے انداز میں کہا یا فارم نیا دے دیں یا پھر اس پر نام درست کردیں، نہ تو نام لکھنے میں میری غلطی تھی اور نہ ہی فارم والے کلرک کی چابی نہ ہونے میں میرا کوئی دوش تھا، مگر وہاں میری بات سننے کو کوئی تیار ہی نہیں تھا۔
ہر گزرتے لمحے بیٹی کا فیس کے پیسوں کے لیے انتظار کرتا ہوا چہرہ آنکھوں کے سامنے آجاتا، کبھی جی چاہتا کہ الماری کا تالا توڑ کر فارم نکال لوں، کبھی جی چاہتا کہ فائل کو آگ لگا دوں، انتہا کی بے بسی تھی اور کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی، ان دفتروں میں بیٹھے ہوئے تمام لوگ اسی محکمے سے تعلق رکھتے تھے، جس محکمے میں بطور کلاس فور چوکیدار میں نے اٹھائیس سال گزارے تھے، آتے جاتے ہوئے، بڑے صاحبان، بابوؤں، کو فرشی سلام کیے تھے، ایک تو سب مجھے ذاتی طور پر جاننے والے تھے۔
اوپر سے افسران و دیگر عملے کے افراد کی گاڑیوں کا دروازہ جب کھولتا تو سب یہی کہتے تھے، خاکسار جی کوئی کام ہوا تو بتانا ضروراور آج میں یہاں بے بس تھا اور کسی کو بھی خاکسار کی پروا نہیں تھی۔ بڑے صاحب سرکاری فون سے بیگم کے ساتھ گپ لگاتے ہوئے کہیں پر لگی کپڑوں کی سیل میں جانے کا وعدہ کررہے تھے، سیکرٹری صاحبہ نے ابھی تازہ تازہ ناخنوں کو پالش لگائی تھی اور وہ فی الحال کوئی بھی کام نہیں کرسکتی تھی، جی پی فنڈ کا کلرک باؤ الطاف میرے پاس آیا، میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور بائیں آنکھ کو میچ کر کہنے لگا، بادشاہو کل سویرے سویرے آجانا کام ہوجائے گا۔
میں نے گلے میں پھنسی ہوئی آواز میں کہا لیکن کل تو یونیورسٹی میں فیس جمع کروانے کی آخری تاریخ ہے، وہ اسی طرح دوبارہ بائیں آنکھ کو میچتے ہوئے زیرِ لب مسکرا کر کہنے لگا، بادشاہو اب آپکی یونیورسٹی کی عمر نہیں رہی، اور آپ چنداں فکر نہ کرو، کل پہلے ٹائم آجانا میں بھاگ دوڑ کرکے سارا کام کروا دوں گا۔ اور خوشی کا موقع ہے، جیتے جی پینشن وصول کرنے جارہے ہو، تو کل آتے ہوئے کچھ مٹھائی ساتھ ضرور لے آنا، میں نے پوچھا مٹھائی کتنی لاؤں؟ کہنے لگا بادشاہو جس پر بابا جی کی فوٹو ہوتی ہے وہ والی مٹھائی۔ خالی ہاتھ گھر جانے اور بیٹی کے سوالیہ چہرے کو دیکھنے کی ہمت نہیں ہورہی تھی۔
میں چارو ناچار فائل اٹھا کر وہاں سے نکل کر آیا، خالی ہاتھ گھر جاکر بیٹی کا سامنا کیسے کروں گا، یہی سوچ کر بے مقصد سڑکوں پر آوارہ گردی کرنے لگا، رات گئے دیر سے جب گھر میں داخل ہوا تو، میری بیوی میرے انتظار میں جاگ رہی تھی، اور میری بیٹی سو چکی تھی، اندھیرے میں اسکی آنکھیں یوں دکھائی دے رہی تھیں جیسے میرا ایکسرے کررہی ہوں، اور میں گھبرا کر نظریں چراتا ہوا، جاکر چارپائی پر لیٹ گیا، بقیہ رات کانٹوں پر بسر کی، صبح فجر کی نماز پڑھ کر میں پیدل ہی اپنے محکمے کے دفاتر کی جانب چل دیا، وہاں پہنچ کر بند دفتروں کے باہر بیٹھ کر میں انتظار کرنے لگا۔
چند دن قبل جہاں میں ڈیوٹی کرتا تھا، وہ جگہ اب ایک نیا چوکیدار سنبھال چکا تھا، اسی کے ساتھ بیٹھ کر گپ شپ کرنے لگا، سات بجے کے بعدایک ایک کرکے بابو لوگ آتے گئے، اور اپنے اپنے دفتروں میں بیٹھ کر اخبار کا مطالعہ کرنے لگے، سب نے حسبِ معمول چوکیدار کے ہاتھ قریبی ہوٹل سے ناشتہ منگوایا اور خوشگوار موڈ میں ناشتہ کرنے لگے، میری جگہ سنبھالنے والے چوکیدار نے اپنا ٹفن کھولا تو میں نے بھی اس کے اصرار پر دو چار لقمے زہر مار کر لیے۔
دفتروں میں سائلین کا تانتا بندھنے لگا، انتظار کرتے کرتے دس بج گئے نہ تو فارم دینے والا کلرک آیا اور نہ ہی کسی بابو یا افسر کو میری حالت پر رحم آیا، میرے اندر اضطراب اور بے چینی کی انتہا ہوگئی تھی، بار بار گھر سے کال آتی تو کاٹ دیتا، بات کرتا بھی تو کیا کرتا، جھوٹی تسلی اور وعدے تو پچھلے ایک ماہ سے کرتا آرہا تھا، بارہ بج گئے تو بیٹی کے نمبر سے بار بار کال آنے پر بالآخر لرزتے کانپتے ہاتھوں سے ریسیو کر ہی لی، جیسے ہی فون کان سے لگایا، دوسری طرف وہ روتے ہوئے ہچکیوں میں کہہ رہی تھی بابا آپ کہاں ہیں؟
کل سے آپ پیسے لانے کا وعدہ کرکے گئے ابھی تک لوٹے نہیں، اور اب تو یونیورسٹی میں فیس جمع کروانے کا وقت بھی ختم ہوگیا ہے۔ بابا میری فیس اور میری تعلیم کا کیا ہوگا؟ میں اسوقت کل سے غائب کلرک کی فارم والی بند الماری کے پاس کھڑا اس پر لگے وزنی تالے کو گھور رہا تھا، بیٹی کی لگاتار ہچکیوں میں رندھی آواز سن کر رہا سہا حوصلہ ساتھ چھوڑ گیا، اچانک پتا نہیں کیا ہوا، آنکھوں کے سامنے اندھیر سا چھایا اور میں غش کھا کر چکراتے ہوئے گرا، سر اسی الماری سے جا ٹکرایا، شاید کوئی گہری چوٹ آگئی تھی یا پھر صدمہ گہرا تھا، میں تین ماہ ہسپتال میں بے ہوش رہا۔
ہوش آنے کے بعد پہلا منظر جو دیکھا وہ، سفید لباسوں میں ملبوس ہسپتال کے عملے کے درمیان شکنوں سے الجھا ہوا سیاہ لباس پہنے اپنے حال سے بے پروا میری بیوی کے جھریوں زدہ چہرے پر بے نور آنکھیں اور جھاڑ جھنکار کی مانند بکھرے ہوئے بال تھے، اسے گم صم بیٹھے دیکھ کر پہلا تاثر یہی ابھرا جیسے وہ کسی میت کے سرہانے بیٹھی بین کرتے کرتے دل پر بھاری سل رکھ چکی ہو، میرے ہوش میں آنے اور ڈاکٹروں کے معائنے کے بعد جب مجھے گھر جانے کی اجازت مل گئی، تو پتا چلا کہ میرے حادثے کے بعد میرے گھر والوں پر قیامت آکر گزر چکی تھی۔
میں جب گر کر بے ہوش ہوا تھا تو پہلے سب یہی سمجھتے رہے کہ شاید میں کوئی ڈرامہ کررہا ہوں، کسی نے بھی سنجیدگی سے نہ لیا، وہ تو کسی نے میرے سر کے ارد گرد جب جمے ہوئے خون کا تالاب دیکھا تو اس کے بعد مجھے فوری طور پر ہسپتال لیجایا گیا، اس دوران میری حالت سے گھر والوں کو لاعلم رکھا گیا، میری اکلوتی بیٹی نے میری طرف سے کوئی رابطہ نہ کرنے پر، اور فیس ادا نہ ہونے کی وجہ سے سال ضائع ہو جانے پر دل برداشتہ ہو کر خود کشی کر لی تھی۔ دفتر والوں نے میرے علاج معالجے پر اٹھنے والے اخراجات کو میری پینشن سے کاٹ لیا تھا۔
جب میں تندرست ہوکر اپنا حساب کتاب لینے پہنچا تو پتا چلا کہ، محکمے والوں نے میری ساری پینشن میرے علاج کی مد میں ڈال کر الٹا میرے ذمے پچھتر ہزار روپے کا واجب الادا قرض بھی شامل کیا ہوا تھا، اور میری فائل پر موٹے موٹے سرخ حروف سے لکھا ہوا تھا، اگر اس سال کے آخر تک یہ قرض واپس نہ کیا گیا تو مجھے جیل بھی ہوسکتی ہے۔