Marne Aur Bachane Wala Groh
مارنے اور بچانے والا گروہ
جنگلی ہاتھی جس پر قابو پانا اور پکڑنا جان جوکھم کا کام ہوتا ہے، تو اس پر قابو پانے کے لیے شکاری مختلف حیلے استعمال کرتے ہیں ان میں سے ایک چال یوں ہے کہ شکاری ہاتھیوں کے رستے میں ایک ہاتھی کی جسامت کے مساوی گہرا گڑھا کھود کر اسے درخت کی شاخوں سے ڈھانپ دیتے ہیں اور جب ہاتھی اس گہرے گڑھے کے اندر گرتا ہے تو اپنی طاقت اور زور کے باوجود اس سے باہر نہیں نکل سکتا۔
اب شکاریوں میں اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ غصے میں مبتلا ہاتھی کو گڑھے سے فوراً باہر نکال کر اس کے غضب کا سامنا کریں۔ ہاتھی کو شانت کرنے اور اسے مکمل طور پر اپنے بس میں کرنے کے لیے پہلے مرحلے کے بعد شکاری مزید دیگر چالوں کا سہارا لیتے ہیں۔
شکاری خود کو دو گروہوں میں تقسیم کر لیتے ہیں۔
ایک گروہ میں شامل شکاری سرخ رنگ کا لباس پہن لیتے ہیں۔۔
اور دوسرا گروہ نیلے رنگ کا۔
ایسا اس لیے کرتے ہیں کہ ہاتھی دونوں رنگوں میں واضح طور پر فرق کر سکے۔
پہلے لال کپڑوں میں ملبوس شکاری آتے ہیں اور ہاتھی کو لاٹھیوں سے بری طرح سے پیٹتے ہیں، جسمانی تشدد کے بعد جب کہ وہ شدید غصے میں ہوتا ہے اور ہلنے جلنے سے قاصر ہوتا ہے۔
تو پھر نیلے لباس والے شکاری آتے ہیں، اور وہ سرخ لباس والے شکاریوں پر غصہ کرتے ہیں اور انہیں وہاں سے بھگا دیتے ہیں، اور وہ ہاتھی کو تھپتھپاتے ہیں، لاڈ پیار کرتے ہیں، اور اسے چارہ کھلاتے اور پانی پلاتے ہیں، لیکن وہ اسے باہر نہیں نکالتے، اور چلے جاتے ہیں۔
عمل متعدد بار دہرایا جاتا ہے اور ہر بار، سرخ گروہ، مار پیٹ اور تشدد کا دورانیہ بڑھاتا ہے اور نیلا گروہ برے شکاریوں کو بھگانے، ہاتھی کو کھانا کھلانے اور پانی پلانے کے لیے اچانک آگے بڑھ آتا ہے۔
اس نفسیاتی کھیل میں ہاتھی کے نزدیک سرخ گروہ شریر اور ظالم افراد اور نیلا گروہ ہمدرد اور مہربان کا درجہ حاصل کرلیتے ہیں۔
جب شکاری دیکھتے ہیں کہ ہاتھی دونوں گروہوں سے اچھی طرح مانوس ہوچکا ہے اور رفتہ رفتہ مار پیٹ کے دوران مزاحمت کرنے کی بجائے نیلے گروہ کا انتظار کرنے لگتا ہے تاکہ وہ آکر ہاتھی کو ظالم شکاریوں سے نجات دلا کر کھلائیں پلائیں اور ہمدردی جتائیں، تو ایک دن، وہ نیلا گروہ جو ہاتھی کا اعتماد جیت کر دوست اور ہمدرد کا درجہ پا چکے ہوتے ہیں وہ گروہ ہاتھی کی مدد کرتا ہے اور بالآخر اسے گڑھے سے باہر نکال لیتا ہے۔
ہاتھی، مکمل تابعداری، فرمانبرداری اور دوستانہ جذبات کے ساتھ، اس اچھے نیلے شکاری گروہ کے ساتھ رہنا شروع کردیتا ہے۔
ہاتھی کو یہ خیال نہیں آتا کہ اگر نیلا گروہ اچھا اور طاقتور ہے اور اسے باہر نکالنے پر قادر بھی تھا، تو اس نے اسے اس ساری اذیت کو برداشت کرنے کے لیے گڑھے میں کیوں چھوڑ دیا؟
پہلے دن سے اسے بچا کر باہر کیوں نہیں نکالا؟
نیلے لباس والا گروہ ظالم لوگوں کو تھوڑی دیر کے لیے کیوں بھگاتا تھا؟
اگر نیلا گروہ طاقتور تھا تو سرخ گروہ کی بار بار وہاں آنے کی ہمت کیسے ہوتی تھی؟
یہ تمام سوالات قوی الجثہ ہاتھی کے ذہن سے نکل گئے تھے۔
جس طرح ہاتھی کو قابو کیا گیا تھا ٹھیک اس طرح لوگوں کو قابو کیا جاتا ہے۔
مارنے اور بچانے والا گروہ ایک ہی ہوتا ہے مگر بھیس بدل کر آنے والے نیلے لباس والوں کا لوگ شکریہ ادا کرتے ہیں اور وہ اس بات سے لاعلم رہتے ہیں کہ جنہوں نے انہیں بچایا ہے دراصل وہی ہیں جنہوں نے اس مصیبت میں دھکیلا تھا۔
آج ہم جس دکھ اور مصیبت میں مبتلا ہیں اس کا سبب وہی لوگ ہیں جو ہمارے اردگرد ہمارے ہمدرد اور مہربان بنے ہوئے ہیں!