Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Toqeer Bhumla
  4. Main Seekh Raha Hoon

Main Seekh Raha Hoon

میں سیکھ رہا ہوں

میں اپنی زندگی کے اس مرحلے پر ہوں جہاں میں سیکھ رہا ہوں کہ جب انسان چیزیں جمع کرنے کے بجائے کم کرنے لگتا ہے تو زندگی ہلکی پھلکی اور پرسکون ہونے لگتی ہے۔ میں اپنے تعصبات، مبالغہ آرائی کی خواہشات اور دکھاوے کی نیکیوں سے آہستہ آہستہ الگ ہو رہا ہوں۔ اب نیکی میرے لیے کسی انعام، تعریف یا واہ واہ کا سودا نہیں، سود و زیاں کی اس تجارت سے میں نے خود کو آزاد کر دیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ نیکی بطورِ انسان ایک اخلاقی اور سماجی ذمہ داری ہے جو بدلے کی تمنا کے بغیر بھی ہر حال میں کرنی ہی کرنی ہے۔

اسی طرح برائی نہ کرنے کا میرا معیار خوفِ سزا نہیں، بلکہ یہ یقین ہے کہ روشنی اور اندھیرے، دونوں کا ایک طاقتور نگہبان ہے جو ہمارے ظاہر اور باطن کی نیتوں دونوں سے واقف ہے۔

یہی احساس اب میرا رہنما بلکہ قطب نما ہے۔

میں نے وہ دعوے ترک کر دیے جن کے آثار یا نتائج ناپے نہ جا سکیں یا کسی فریم میں نہ سما سکیں۔ مثلاً جو ہے وہ بانٹو اور دگنا لو یا تقسیم کرو اور پھر دیکھو تمھارے پاس کتنا اضافہ ہوتا ہے۔ اب جو کچھ میں بانٹتا ہوں وہ کسی واپسی یا اضافہ کی امید میں نہیں، بلکہ انسانی سماجی فریضہ اور دوسروں کا حق سمجھ کر کرتا ہوں۔ بانٹنا میرے لیے سود و زیاں کا سودا نہیں بلکہ ذمہ داری ہے اور اس ذمہ داری میں مادی یا روحانی منافع کی خواہش شامل نہیں ہوتی۔

میں نے خدا کا ترجمان بننے کا کام چھوڑ دیا ہے۔ کسی کے زوال، بیماری یا بڑھاپے کو سزا کا نام دینا یا کسی کے عروج کو ثواب یا برکت کا ثبوت سمجھ لینا، یہ سب خود ساختہ اور سطحی تقابل ہیں۔ انسان فطرتاً کمزور اور عاجز ہے، اس کی بیماریاں، ناکامیاں یا بڑھاپا اس کی سزا نہیں بلکہ اس کے تجربات اور مظاہر فطرت ہیں جو ہر کسی نے جھیلنے ہی جھیلنے ہیں۔ چونکہ جزا و سزا کا دن موت کے بعد رکھا گیا ہے، اس لیے اگر کوئی برائی کرتا ہے تو سماجی سزا و جزا کے قانون کے ہوتے ہوئے مجھے یہ اختیار یا حق نہیں کہ میں محض اپنے کنفرمیشن بائس کے تحت پسندیدہ کا وکیل اور ناپسندیدہ کا جج بن جاؤں۔

میں سیکھ رہا ہوں کہ ماضی کا معاشرہ، رنگ، نسل، زبان، مذہب یا طبقاتی بنیاد پر تقسیم رکھتا ہے، یہ درجہ بندیاں دراصل انسانی کمزوریوں اور بشری کوتاہیوں کی شواہد ہیں۔ "کالا قانون", "بلیک لسٹ" یا "کالی بھیڑ" جیسے القابات زبان اور سماجی ادراک کے ارتقا سے قبل کے تعصبات ہیں جو محض رنگ کی بنیاد پر تفریق کرتے ہوئے ایک رنگ کو کمتر اور دوسرے کو برتر گردانتے ہیں۔ یہ تعصبات رنگ و نسل کی اونچ نیچ سے انسان کو انسانیت کے مقام سے دور کر دیتے ہیں۔ ہمیں کم از کم اپنے طور پر الفاظ اور معنویت کو بدلنا چاہیے، کیونکہ اکثر ظلم اور تفریق اسی سے جنم لیتے ہیں۔

میں سماجی، ادارتی اور داخلی تعصبات کو پہچاننے کی کوشش میں ہوں اور سیکھ رہا ہوں کہ تحقیقاتی جانچ پرکھ کے زاویے، انتخابی جھکاؤ، توثیقی رجحانات، میڈیا اور رپورٹنگ کے اثرات کس طرح ہماری رائے اور فکر کو یکطرفہ یا stereotype بنا کر ہمیں جامد اور متعصبانہ ذہن عطا کر دیتے ہیں۔ ہر رویے کے پیچھے ایک کہانی ہوتی ہے اور اس کہانی کو سمجھے بغیر کسی نتیجے پر پہنچنا یا کسی پر لیبل لگانا دانشمندی نہیں۔

علم کی دو جہتیں ہیں: ایک عرفانِ کائنات جو ہمیں دنیا کے نظام سے روشناس کراتی ہے اور دوسری عرفانِ ذات جو ہمیں اپنے وجود کی حقیقت سے آشنا کرتی ہے۔ پہلی نے ہماری زندگی آسان بنائی، مگر دوسری ہی ہمیں انسان بناتی ہے اور آسانی کو برتنے کا شعور دیتی ہے۔ ہم نے پہلی کو ترقی کا زینہ اور دوسری کو قدامت کے خانے میں رکھ دیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ انسان باہر سے مہذب اور اندر سے خالی اور تنہا ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے گیجٹس بڑھ گئے ہیں مگر احساسات کم ہو گئے ہیں، معلومات کی انرجی لامتناہی پھیلتی جارہی ہے مگر معرفت محدود ہو کر رہ گئی ہے۔

ہم نے بیرونی رابطوں کو تو برق رفتار بنا لیا، لیکن اپنے من میں اترنے کے لیے ایک زینہ تک نہ بنا سکے۔ ہم نے ٹیکنالوجی اور نیٹ ورک کی حدوں کو پار کر لیا، مگر اپنے من کی خاموشیوں کو سننے کی صلاحیت کھو دی۔ آج کائنات سے زیادہ جڑے ہوئے ہیں، مگر خود سے اتنا ہی زیادہ کٹے ہوئے۔ ہم ہر چیز سے رابطے میں ہے، سوائے اپنے آپ کے، شاید اسی لیے سکون اب بھی سب سے نایاب شے ہے۔

Check Also

Youtube Automation, Be Rozgar Nojawano Ka Badalta Mustaqbil

By Syed Badar Saeed