Jang (2)
جنگ (2)
باپ نے ملتے ہی پوچھا، اوئے پتر شبیر تیرا جگری کدھر ہے، کیا وہ تیرے ساتھ نہیں آیا؟ شبیر گجر نے اپنے اندر سے چھلکنے کو بے تاب آنسوؤں پر ضبط کیا، اور مختصراً کہا " نہیں وہ نہیں آیا"، اپنی بات کا ردعمل دیکھے بغیر اس نے بیگ اٹھایا اور اپنے کمرے میں چلا گیا۔ رات کے کھانے کے بعد جب سب گھر والے اور شبیر گجر کے بچپن کے دوست ایک کمرے میں اکٹھے بیٹھے تھے، تو شبیر گجر کے باپ نے ایک لمبا سا کاغذشبیر گجر کو تھمایااور کہا پتر ذرا دیکھ بیاہ پر مدعو کرنے سے کوئی رہ تو نہیں گیا؟ شبیر نے سرسری سی نظر دوڑائی، پینسل اٹھائی اور ایک نام پر لائن کھینچ کر، کاغذ واپس باپ کو دیتے ہوئے کہا، بس جہاں لائن کھینچی ہے اس کو چھوڑ کر باقی سب ٹھیک ہے۔
شبیر گجر کے باپ نے جب دیکھا تو لائن زاہد مغل کے نام کے اوپر کھینچی ہوئی تھی، اس نے حیرانی سے سر اٹھا کر دیکھا تو شبیر گجر اپنا رخ دوسری جانب کیے دوستوں کے ساتھ باتوں میں مصروف تھا۔ آناً فاناً دو دن گزر گۓ، مہندی کی شام جب شبیر یار دوستوں سے مہندی لگوا رہا تھا تو اسے کسی نے بتایا کہ زاہد مغل کا باپ آیا ہے، ایک لمحے کے لیے تو اسے ایسا لگا جیسے کہنے والے نے کہا ہو زاہد مغل آگیا ہے، اس نے خود ہی سر کو جھٹک کر اپنے خیال کو رفع کیا۔ اتنے میں زاہد مغل کا باپ بھی وہاں آگیا، اس نے بڑے پیار سے شبیر گجر کا ماتھا چوما، مبارک باد کے ساتھ زبردستی چند سرخ نوٹ اور دیگر تحائف اس کو پکڑائے، اور کہنے لگا کہ شبیر پتر مجھے ایک نہایت ضروری کام ہے، اس لیے واپس جا رہا ہوں۔
یوں زاہد مغل کے باپ نے اجازت لی اور واپس چلا گیا۔ شبیر کے سب گھر والے حیران تھے کہ یہ کیا کایا پلٹ ہوئی ہے کہ جگری دوست ایک دوسرے کو دیکھنے کے بھی روادار نہیں ہیں۔ شبیر کی شادی دھوم دھام سے ہوگئی، پینتالیس دن کی قلیل مدت پلک جھپکتے گزر گئی۔ شبیر گجر نئی نویلی دلہن کو روتا ہوا چھوڑ کر برفانی سرحدوں کی طرف روانہ ہوگیا۔ برفانی طوفانوں کو سہتے سہتے شاید فوجیوں کے جذبات و احساسات پر بھی برف منجمد ہوگئی تھی۔ چند دن کمپنی ہیڈ کوارٹر میں رہ کر بالآخر ایک سرد طوفانی شام کو شبیر دوبارہ کوہِ قاتل کے دامن میں بنے بیس کیمپ پر پہنچ گیا تھا۔
جاتے ہوئے اس کے دل میں ایک ہی بات تھی کہ موسم پذیری کے فوراً بعد سیدھا آخری چوکی جاؤں گا اور وہاں جاکر زاہد سے حساب بے باق کروں گا۔ بیس کیمپ پر رات کے کھانے کے بعد شبیر گجر نے محسوس کیا کہ کیمپ کا خاصہ جو رات کے کھانے کے بعد گہماگہمی ہوتی تھی وہ اس بار مفقود تھی، کافی زیادہ سپاہی نئے اور مختلف یونٹوں سے آئے ہوئے تھے، اکا دکا ہی پرانے شناسا چہرے باقی تھے۔ حوالدار افتخار جنجوعہ ابھی تک وہیں تھا، اور پرانے شناسا چہروں میں وہی سب سے نمایاں تھا۔
شبیر گجر، حوالدار افتخار جنجوعہ کے خیمے میں چلا گیا تاکہ آخری چوکی پر جانے والی پہلی پارٹی میں اپنا نام شامل کروا سکے۔ سلام دعا کے بعد شبیر گجر نے محسوس کیا کہ کچھ نہ کچھ گڑ بڑ ضرور ہے کیونکہ حوالدار افتخار جنجوعہ کے لہجے میں گرمجوشی کی جگہ سرد مہری تھی۔ تھوڑی دیر بعد جب اِدھر اُدھر کی باتیں ختم ہوگئی تو، حوالدار افتخار جنجوعہ نے کہا، میں تمھیں کچھ بتانا چاہتا ہوں، شاید تم ابھی تک بے خبر ہی گھوم رہے ہو۔ سنو " جس صبح تم اپنی چھٹی کا پروانہ لیکر یہاں سے گئے تھے، اس سے پچھلی رات میں زاہد مغل کو ایمرجنسی میں اوپر آخری چوکی پر بھیجا گیا تھا، شبیر گجر نے بے زاری سے کہا، حوالدار صاحب کوئی نئی بات ہو تو بتائیں۔
حوالدار افتخار جنجوعہ نے ایک نظر اسے دیکھا اور کہا، جس رات علمدار شاہ کی ٹانگ کٹی تھی، چوکی پر اُس رات تین جوان زخمی ہوئے تھے، کپتان صاحب کا سختی سے حکم آیا تھا کہ دیگر سپاہیوں کے ساتھ تمھیں یعنی شبیر گجر کو فی الفور آخری چوکی پر بھیجا جائے، اس بات کی خبر زاہد مغل کو جب ہوئی تو وہ مجھے اور صوبیدار صاحب کو ساتھ لیکر کپتان صاحب کے خیمے میں چلا گیا۔ وہاں جاکر اس نے منت ترلہ کرکے بخار کے باوجود تمھاری جگہ اپنا نام لکھوایا، نفری کم ہوجانے کے باعث، تمھاری چھٹی کپتان صاحب نے وقتی طور پر منسوخ کردی تھی، تمھیں چھٹی بھجوانے پر جتنا زور زاہد مغل نے لگایا ہے، اتنا شاید تم خود نہ لگاتے۔
پھر وہ راتوں رات چلا گیا، اسے ڈر تھا کہ شبیر گجر کہیں اپنی چھٹی منسوخ کرکے اگلی چوکی پر نہ چلا جائے، اس نے کہا تھا کہ شبیر کو بتانا، وطن کی خاطر لڑنے اور کٹ مرنے کے مواقع بار بار ملتے ہیں، مگر شادی ایک بار ہی ہوتی ہے اور وہ ضرور کرنی چاہیے۔ بس اتنا کہہ کر وہ روانہ ہوگیا تھا۔ شبیر گجر یہ سب سنتا جارہا تھا اور اسے یوں لگ رہا تھا جیسے اس کے اندر جھوٹی انا کے سرد منجمد گلیشئر پاش پاش ہورہے ہوں، وہ اندر سے بے حد شرمندہ تھا، اسے احساس ہوا کہ وہ بے حد کم ظرف اور چھوٹا انسان نکلا، خوامخواہ زاہد جیسے ہیرے کی یاری پر شک کیا اور اپنی طرف سے اس کے ساتھ مکمل قطع تعلق کرنے کا بھی سوچ رکھا تھا۔
حوالدار افتخار جنجوعہ نے ذرا توقف کیا اور کہا، شبیر جانتے ہو، اس کے بعد کیا ہوا؟ جس دن تم گھر پہنچے ہوگے اسی دن، دشمن کی طرف سے لگاتار بھاری شیلنگ کے نتیجے میں، اُس آخری چوکی کے سارے جوان شدید زخمی ہوگئے تھے، نائیک زاہد مغل کے پاس آکر گولہ گرا تھا جس سے اس کا نچلا دھڑ کٹ گیا تھا، اس نے زخمی حالت میں سب سے پہلے تمھارے متعلق سوچا اور فیلڈ ٹیلی فون کے ذریعے ایمرجنسی پیغام پہنچایا کہ میرے زخمی ہونے کی اطلاع میرے اور تمھارے گھر کسی بھی صورت میں نہ دی جائے، اور اگر میں زخموں کی تاب نہ لا سکوں اور شہید ہوجاؤں تو میرے باپ تک یہ پیغام پہنچانا کہ میری شہادت کی خبر تمھارے واپس آنے تک تمھارے گھر نہ دی جائے۔
اسے تمھاری شادی کی فکر تھی، کہ میرے یار کی شادی والے دن ماتم تو بنتا ہی نہیں۔ نائیک زاہد مغل کے خون کا گروپ بھی صرف تمھارے ساتھ ملتا تھا، تقریباً سارا خون بہہ جانے اور یہاں خون کا مناسب بندوبست نہ ہونے کے باعث، وہ ایک دن بعد چل بسا تھا، شہید نائیک زاہد مغل کی تدفین اس کے آبائی گاؤں میں ٹھیک اسی دن ہوئی تھی جس دن تمھاری مہندی بنتی تھی۔ میں شہید کے جسد خاکی کے ساتھ خود گیا تھا، اور اس کے باپ کو شہید زاہد کا پیغام دیکر کہا کہ اس کی آخری خواہش تھی کہ تمھارے گھر، کسی بھی صورت میں زخمی ہونے اور شہادت کی اطلاع نہ دی جائے۔
اس دن زاہد مغل کا باپ مجھے کہہ رہا تھا، حوالدار صاحب آپکو شبیر گجر کے متعلق غلط فہمی ہوئی ہوگی، بھلا اس کی شادی ہو اور وہ مجھے خود لینے نہ آئے ایسا کیسے ہوسکتا ہے، وہ تو میرے اکلوتے بیٹے زاہد کی طرح میرا پُتر ہے۔