Jabal e Hira Ke Gadagar Aur Saraiki Aurat
جبل حرا کے گداگر اور سرائیکی عورت
ابن السبیل نے بے پناہ رش کو دیکھ کر اندازہ لگایا کہ اس بار زائرینِ حرم کی تعداد پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کو دیکھا تو پتا چلا کہ ستاون اسلامی ممالک کے علاوہ دنیا بھر سے دیگر ایسے ممالک جہاں مسلمان بستے ہیں، ان سب ممالک سے روزانہ کئی ملین لوگ حرم مکی اور حرم مدنی میں حاضری کا شرف حاصل کر رہے ہیں ان سب سمیت اس رمضان المبارک اور عید پر ریکارڈ توڑ رش تھا۔
مختلف ممالک اور مختلف خطوں سے آنے والے افراد اپنے ساتھ اپنی ثقافت اور اپنے رسم و رواج کو ساتھ لے کر آتے ہیں۔ عبادت کے علاوہ ان کی زبان، لباس، گفتگو، چال چلن اور دیگر معاملات زندگی "بار کوڈز" کی حیثیت رکھتے ہیں جنہیں کوئی بھی مردم شناس شخص اسکین کرکے ان کے متعلق معلومات اخذ کر سکتا ہے۔ ابن السبیل نے تجرباتی طور پر چند گھنٹے باب شاہ عبدالعزیز اور باب شاہ فہد کے سامنے گزارے جو کہ مصروف ترین دروازے اور گزرگاہ کا درجہ رکھتے ہیں۔
وہاں ہر آتے جاتے کو دیکھ کر اور چند ایک سے بات چیت کرکے، ابن السبیل نے اندازہ لگا لیا کہ مختلف خطوں سے آنے والے لوگ چاہے اپنی زندگی کو جیسے بھی جی رہے ہوں، مگر یہاں بیت اللہ میں کوئی بھی شخص چاہے وہ مرد ہو یا عورت وہ اپنے ساتھ اپنی محرومی کا اشتہار اٹھائے ہوئے نہیں ہے۔ بچے، عورتیں، بوڑھے، نوجوان سب ہی بہترین تراش خراش کے لباسوں میں تھے۔ کھانا کھاتے ہوئے ان کی کوشش ہوتی تھی عمدہ کھانا کھایا جائے۔ بات چیت کرتے وقت مسکراہٹ اور تحمل ان کا خاصہ رہتا تھا۔
ابن السبیل کا ارادہ تھا کہ ایک شب جبل النور / غار حرا پر بسر کی جائے۔ اسی ارادے کی تکمیل کے لیے وہ اپنے چند دوستوں کے ہمراہ اس پہاڑ کی جانب عازم سفر ہوا۔ بلند و بالا اور پرپیچ رستوں والا پہاڑ مکہ کی آبادی سے ہٹ کر ایک چھوٹی سی بستی کے عقب میں اپنی شان شوکت کے ساتھ ایستادہ تھا۔ رات عشاء کے بعد سفر شروع ہوا مگر ٹھنڈے وقت میں بھی اس پر چڑھنا کار دشوار تھا، ہر بیس قدم کے بعد آکسیجن کی شدید کمی ہونے لگتی، سانس اکھڑنے لگتی، اور ٹانگیں چلنے سے انکاری ہو جاتی تو مجبوراً سانس بحال کرنے کے لیے وقفہ کرنا پڑتا۔
اب وہاں پر ایک عجیب منظر کا سامنا تھا۔ پہاڑ کے شروع ہونے سے لیکر چوٹی تک ہر دس قدم کے بعد ایک بھکاری بیٹھا ہوا تھا، بیس بائیس سال کے لڑکوں سے لیکر سن رسیدہ افراد تھے، کسی کے پاس جھاڑو تھا اور کسی کے پاس بیلچہ۔ کوئی مستری بن کر کرنڈی اور مصالحہ کے ساتھ رستوں کی مرمت کرنے کا عمل کر رہا تھا اور کوئی آنے جانے والوں کو دعا دے رہا تھا۔ ان سب میں ایک بات مشترک تھی اور وہ تھی "مانگنے" کی، انہوں نے تقریباً ہر زبان میں پیسے مانگنے والے الفاظ یا جملے سیکھ رکھے تھے، فوراً پہچان جاتے تھے کہ یہ کون سے ملک کا ہے اور اس کو اسی کی زبان میں کہتے کہ "اللہ کے نام پر کچھ مدد کر جاؤ"۔
اب مسئلہ یہ ہوا کہ یہ گداگر سارے کے سارے پاکستانی تھے، لباس بھی پاکستانی پہنے ہوئے، شلوار قمیض جو نہایت بوسیدہ حالت میں تھی اور پیشہ وارانہ ڈھٹائی سے مانگ رہے تھے۔ میرے دائیں طرف ترکش اور بائیں طرف جکارتہ کے دوست تھے۔ اتفاق سے میں بھی شلوار قمیص زیب تن کیے ہوئے تھا اور جب بار بار مانگنے والوں سے تنگ آ گئے تو ترکش اور انڈونیشین پوچھنے لگے ان سب نے تمہاری طرح کا لباس پہنا ہوا ہے، تم ان سے پوچھو کہ یہ کعبہ جا کر اللہ سے کیوں نہیں مانگتے، یہاں پر وہ لوگوں سے کیوں مانگتے ہیں اور وہ بھی چند ریال کی بھیک؟
میں اتنا ہی شرمندہ ہوا جتنا ہوا جا سکتا تھا، کیونکہ ایک صاحب سے پوچھنے کی کوشش کی تو کہنے لگے، کچھ ریال دینے ہیں تو دو، نہیں تو اپنے کام سے کام رکھو۔ ملین زائرین کے درمیان اپنے وطن کی انوکھی شناخت پر بندہ روئے یا ہنسے؟ ان سب مرد بھکاریوں کو دیکھ کر ایک ادھوری خوشی بھی ہوئی کہ وہاں آغاز سے اختتام تک کوئی بھی خاتون بھکاری موجود نہیں تھی۔ مگر یہ خیال اس وقت غلط ثابت ہوا جب صبح پہاڑ سے اتر رہے تھے تو دیکھا مانگنے والوں میں خواتین بھی شامل ہو چکی تھیں۔
خاتون سے یاد آیا کہ بیت اللہ شریف کے طواف کے دوران ایک عورت جو لہجے سے سرائیکی معلوم ہو رہی تھی۔ وہ رو رو کر بلکہ چیخ و پکار کے انداز میں اپنی زبان میں فریاد کر رہی تھی، رب کے ساتھ اس کا خوبصورت مکالمہ میری یادداشت میں محفوظ ہوگیا جو کچھ اس طرح تھا "اللہ دی قسمے میں تینڈی نوکر ہاں، میں تینڈے در دی بُھکی تے منگتی ہاں، میکوں تیرے سوا کسی شے دی اکا کائی لوڑ نہی، میں جس دی زال ہاں، انہے میکوں ہر شے گھنڑ کے دیتی آ، اللہ دی قسمے ہن بس میں تیکوں گھننڑ آئی آں۔ "