I Love You Papa
آئی لو یو پاپا
میں نے تعلیم ِبالغاں کے سلسلے میں بڑی عمر کے مرد و خواتین کو مختلف چیزیں پڑھانے ،اور سکھانے کے سلسلے میں ایک چھوٹی سی مشق کرنے کے لیے دی۔میں نے کہا کہ، آپ کے پاس ایک ہفتے کا وقت ہے، آج سے ہی جب گھر جائیں تو کسی ایسے شخص کو " آئی لو یو" یا "مجھے آپ سے پیار ہے" کہیں، جسے آج تک آپ کہہ نہیں پائے یا پھر لمبے عرصے سے دوبارہ نہیں کہہ سکے۔ایک ہفتے بعد شام کو جب کلاس میں سب حاضر ہوگئے، تو میں نے پوچھا کہ ہفتہ پہلے دی گئی مشق کس کس نے کی ،اور سب سے پہلے اپنے تاثرات کون بیان کرنا چاہے گا؟
اور یہ کوئی پیچیدہ یا مشکل مشق تو تھی ہی نہیں جو سب نہ کرسکتے تھے، میرا خیال تھا کہ ہمیشہ کی طرح کوئی خاتون سب سے پہلے ہاتھ کھڑا کرکے کہے گی ،کہ سرسب سے پہلے میں بتانا چاہتی ہوں ۔ وہ سارے افراد پینتیس سال سے زائد عمر کے تھے، اور مردوں کو تو بچپن سے ہی سکھایا جاتا ہے ،کہ اپنے جذبات کا اظہار کرنا کوئی مردانگی نہیں ہوتی، بلکہ اپنے جذبات چھپا لینا مردانگی ہوتی ہے۔لیکن اس روز خلاف معمول اور خلاف توقع، ایک بڑی عمر کا شخص خود ہی کھڑا ہو کر کہنے لگا،جب آپ نے یہ مشق کرنے کے لیے دی تو مجھے انتہائی زیادہ غصہ آیا، اور میں نے دل میں سوچا آپ بے شک استاد ہوں گے، مگر ہماری ذاتی زندگیوں میں دخل دینے والے آپ ہوتے کون ہیں؟
میں کلاس ختم ہونے سے لیکر گاڑی میں بیٹھنے تک ناراض رہا ،اور غصے سے پیچ و تاب کھاتا رہا تھا۔لیکن جیسے ہی میں نے گاڑی چلانا شروع کی، میرا دھیان ہٹا تو میرے لاشعور میں کچھ اور ہی چلنے لگا، مجھے یاد آنا شروع ہوگیا کہ پانچ سال پہلے میں نے اپنے والد سے اختلاف کی بنا پر ٹھیک ٹھاک جھگڑا کیا تھا، انہیں خوب باتیں سنائیں اور سنی بھی تھیں، جس کا یہ نتیجہ نکلا کہ میں غصے میں ان سے قطع تعلقی کرکے وہ گھر چھوڑ آیا تھا، اور آج تک واپس نہیں گیا نہ ہی ہمارے درمیان دوبارہ کوئی بات چیت ہوئی تھی۔
میں نے اس لمحے سوچ لیا کہ مجھے جلد از جلد اپنے باپ کو "آئی لو یو" کہنا چاہیے، یہ سوچنے اور فیصلہ کرنے کی دیر تھی، کہ یوں لگا جیسے میرے سر سے منوں بوجھ اتر ہوگیا ہو، میں ہلکا پھلکا ہوکر گھر پہنچا، اور اپنی بیوی کو بتایا کہ کل ہم پہلی فرصت میں میرے والد کے گھر جائیں گے، اور وہاں جاکر انہیں میں یہ الفاظ کہوں گا۔ میری بیوی یہ بات سن کر بے حد خوش ہوئی ،اور ہم دونوں کی زندگی میں یہ پہلا موقع تھا ،جب اس نے مجھے روتے ہوئے دیکھا تھا۔ ہم رات دیر تک کافی پیتے رہے اور آنے والے کل کے متعلق باتیں کرتے رہے۔وہ رات بستر پر کروٹیں بدلتے ہوئے ،میں نے بڑی مشکل سے کاٹی تھی۔
علی الصبح میں اپنے دفتر گیا، اور پورے دن کا کام محض دو گھنٹوں میں مکمل کرنے کے بعد ،نو بجے اپنے باپ کو ڈرتے ڈرتے فون کیا، ان کی آواز سنتے ہی میں نے کہا، کہ میں تھوڑی دیر تک آپ کی طرف آرہا ہوں اور وہاں آکر کچھ کہنا چاہتا ہوں، میرے باپ نے کرخت لہجے میں جواب دیا "کہنے سننے کو کیا بچا ہے" سب کچھ تم پہلے ہی اچھی طرح سنا چکے ہو ،اب مزید کیا ہے جو تم کہنا چاہتے ہو؟میں نے کہا بس ہے کچھ ایسا باقی جو کہہ نہیں سکا۔اس کے بعد میں نے اپنی بیوی کو ساتھ لیا اور باپ کے گھر چلا گیا۔
دروازے پر لگی ہوئی گھنٹی کو بجاتے ہوئے دل و دماغ میں ایک ہی دعا آرہی تھی ،کہ دروازہ میری ماں نہ کھولے، کیوں کہ وہ کچھ سنے بغیر ہی مجھے واپس بھیج دے گی، وہ اپنے ساتھ رہنے والے شوہر کی بجائے، گھر چھوڑنے والے بیٹے کی طرف داری کرے گی بھی کیوں ۔جب دروازہ کھلا تو دیکھا،میرا بوڑھا باپ اجنبی نظروں سے میری جانب دیکھ رہا تھا، اور مجھے دیکھتے ہی کہنے لگا جو کچھ کہنا چاہتے ہو، وہ وہاں دروازے میں کھڑے کھڑے ہی کہہ کر لوٹ جاؤ۔
میں نے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے فوراً کہا ، میں نے آج تک ایک بات آپ سے کبھی بھی نہیں کی بس وہی کہنے کے لیے یہاں آیا ہوں، اور وہ یہ ہے کہ"آئی لو یو پاپا" میں آپ سے محبت کرتا ہوں ۔پتا نہیں میرے ان چند الفاظ میں کون سی طاقت تھی، جنہوں نے میرے باپ پر ایک جادوئی اثر کیا۔وہ باغیچے میں اُگی گھاس پر، گھٹنوں کے بل بیٹھ کر، بچوں کی مانند بلک بلک کر رونے لگے، اور اپنی بانہیں کھول کر مجھے کہنے لگے"آؤ میری آغوش میں آجاؤ، میرے بیٹے میں بھی تم سے بے حد پیار کرتا ہوں، آئی لو یو ٹو مائی سن" میرے بیٹے بس مجھ میں یہ کہنے کی ہمت نہیں ہوئی تھی۔
اس لمحے گھر کے ہر فرد کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔یہ ایک ایسا قیمتی لمحہ تھا جسے میں کھونا نہیں چاہتا تھا، میں دیر تلک باپ کے سینے سے لگ کر روتا رہا، حتیٰ کہ میں ماں کو صرف ہاتھ کے اشارے سے ہی بوسے کا اظہار کرسکا۔ اس کے بعد میں ہلکا پھلکا ہوکر گھر لوٹ آیا۔لیکن یہ بات یہاں ہی ختم نہیں ہوئی،میرا باپ دل کا مریض تھا، دو دن بعد انہیں دل کا دورہ پڑا تو وہ بے ہوش ہوگئے، انہیں ہسپتال تو لے گئے مگر ابھی تک وہ ہوش میں نہیں آئے، اور پتا نہیں دل کی دھڑکن واپس لوٹے گی بھی یا نہیں ۔
اس کے بعد میں سوچتا رہا ،کہ اگر میں دو دن پہلے تمام گلے شکوے بھلاکر اپنے باپ کے سینے سے نہ لگتا تو پھر؟اس لیے میں اس کلاس کے تمام دوستوں سے کہنا چاہتا ہوں، کہ اس سے پہلے کہ دل کی دھڑکن واپس نہ لوٹ سکے، اپنے روٹھے ہوئے لوگوں کو "آئی لو یو" کہہ لیں ۔وہ کام کرنے کا انتظار نہ کریں جو آپ جانتے ہیں کہ کرنے کی ضرورت ہے۔ کیا ہوتا اگر میں اپنے والد کو بتانے کا انتظار کرتا رہتا ، شاید مجھے دوبارہ کبھی موقع نہ ملے! آپ کو جو کرنے کی ضرورت ہے اس کے لیے وقت نکالیں اور ابھی کریں۔