Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Toqeer Bhumla
  4. Farma Bardari Ki Nafsiat

Farma Bardari Ki Nafsiat

فرماں برداری کی نفسیات

انسان صدیوں سے شاہوں، سرداروں، مذہبی پیشواؤں، ریاستی اداروں، مقتدرہ اور طاقتور کے سامنے جھکتا آیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ظلم کرنے والے لوگ برے ہوتے ہیں۔ لیکن کیا ہوگا اگر ظلم کرنے والا آپ جیسا ہو؟ ایک عام شخص۔ ایک شریف شہری۔ جو صرف یہ سمجھتا ہے کہ "میں صرف حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اپنی ذمہ داری ادا کر رہا ہوں"۔

یہی وہ خوفناک سوال تھا جس نے 1961 میں اسٹینلی میلگرام کو بے چین کر دیا۔ انسانی تاریخ میں کچھ تجربے ایسے ہوتے ہیں جو نسلوں کے اخلاقی یقین کی جڑیں ہلا دیتے ہیں۔ اسٹینلی میلگرام کا تجربہ انہی میں سے ایک تھا۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد دنیا ہٹلر کے مظالم پر حیران تھی۔ جنگی عدالتوں میں ظالم افسران نے ایک ہی جواب اور جواز دیا: "ہم نے صرف افسران بالا کے احکامات پر عمل کیا"۔ میلگرام، جو اس وقت ییل یونیورسٹی میں نوجوان ماہرِ نفسیات تھا، نے اس جواز کو آزمانے کا فیصلہ کیا۔ وہ یہ جاننا چاہتا تھا کہ عام انسان اختیار کے سامنے کہاں تک جھک سکتا ہے اور کیا وہ اپنے ضمیر کے خلاف بھی کسی حکم کی تعمیل کر سکتا ہے۔

ییل یونیورسٹی کے ایک پرسکون کمرے میں یہ تجربہ ترتیب دیا گیا۔ اخبارات میں اشتہارات کے ذریعے عوام سے رضاکارانہ طور پر لوگوں کو بلایا گیا۔ یہ لوگ نہ فوجی تھے، نہ سائنس دان، نہ کسی خاص ادارے کے تربیت یافتہ ملازم۔ یہ عام لوگ تھے، جن میں دکاندار، کلرک، ٹیچر، انجینئر، محنت کش، سیلز مین اور طلبہ شامل تھے۔ ان کی عمریں بیس سے پچاس سال کے درمیان تھیں اور وہ مختلف سماجی و تعلیمی طبقات سے تعلق رکھتے تھے۔ ان میں مذہبی رجحان رکھنے والے بھی تھے اور سیکولر سوچ رکھنے والے بھی۔ ان سب کو یہ باور کرایا گیا کہ وہ سب انسانیت کی بھلائی کے لیے ایک "انسانی یادداشت اور اس کے اثرات کے تجربے" میں حصہ لے رہے ہیں۔ یہ وہی عام امریکی معاشرہ تھا جو اپنے آپ کو تعلیم یافتہ، مہذب اور انسانی حقوق کا علمبردار سمجھتا تھا۔

اس تجزیے کا طریقہ کار سادہ مگر نفسیاتی طور پر نہایت معنی خیز تھا۔ کمرے میں بیک وقت تین کردار تھے۔ رضا کار شرکاء میں سے ایک فرد جسے کہا گیا کہ وہ "استاد" کا کردار ادا کرے گا، دوسرا میلگرام کی ٹیم کا ایک اداکار، جو "طالب علم" بنا اور تیسرا بھی میلگرام کی ٹیم کا ایک کردار جو سفید کوٹ پہنے "ماہرِ نفسیات" کا کردار ادا کرتے ہوئے انسانیت کی بھلائی والے تجربے کے لیے احکامات دیتا۔ رضاکار شرکاء اس کھیل سے بے خبر تھے۔ جسے استاد کی ذمہ داری سونپی جاتی اسے کہا جاتا کہ وہ سوال پوچھے اور ہر غلط جواب پر طالب علم کو برقی جھٹکا دے۔ جھٹکوں کی شدت 15 وولٹ سے شروع ہو کر 450 وولٹ تک تھی۔ شرکاء اس بات سے قطعی طور پر بے خبر تھے کہ جھٹکے مصنوعی تھے اور چیخنے، فریاد کرنے اور آخرکار خاموش ہو جانے کی آوازیں پہلے سے ریکارڈ شدہ تھیں طالب علم محض اداکاری کررہا تھا۔

جب استاد بنے شرکاء نے بجلی کی جھٹکے دیتے ہوئے چیخیں سنیں تو بیشتر نے رکنے کی خواہش ظاہر کی، کچھ نے مشین بند کرنے کی بات کی۔ لیکن سفید کوٹ پہنے شخص نے نہایت پرسکون لہجے میں کہا، "انسانیت کی بھلائی کے لیے تجربہ جاری رکھنا ضروری ہے۔ نتائج حاصل کرنے تک آپ کو آگے بڑھنا ہوگا" اور حیرت انگیز طور پر، ان میں سے پینسٹھ فیصد نے آخری حد یعنی 450 وولٹ تک جھٹکے دیے۔ استاد بنے شرکاء کے چہرے خوف سے پیلے پڑ گئے تھے، ان کے ہاتھ کانپ رہے تھے، کچھ ہنس بھی رہے تھے۔ لیکن انہوں نے حکم مانا۔ ان میں سے زیادہ تر عام شہری تھے، کسی قسم کے جسمانی اور نفسیاتی مسئلے میں مبتلا نہیں تھے۔ وہ سب اپنے روزمرہ کے اخلاقی معیار کے لحاظ سے "نارمل انسان" تھے۔

میلگرام نے بعد میں لکھا کہ اس تجربے کا سب سے پریشان کن پہلو یہ نہیں تھا کہ لوگوں نے ظلم کیا، بلکہ یہ تھا کہ انہوں نے ایسا کرتے ہوئے خود کو مجرم نہیں سمجھا۔ انہیں یقین تھا کہ وہ محض ایک ذمہ داری ادا کر رہے ہیں۔ ان کے نزدیک حکم دینے والا شخص اخلاقی ذمہ داری کا حامل تھا جو بہتری کے لیے تجربہ کررہا تھا۔ اس کیفیت کو میلگرام نے "ایجنٹک اسٹیٹ" (Agentic State) کہا، یعنی انسان اپنے عمل کی ذمہ داری اختیار کو منتقل کر دیتا ہے اور خود کو محض ایک آلہ کار سمجھ کر ذہنی طور پر اپنے کیے سے بری الذمہ ہوجاتا ہے۔

یہ تجربہ اس وقت کے امریکی معاشرے کے لیے ایک دھچکا تھا۔ لوگ سمجھتے تھے کہ نازی جرمن عوام اندھے عقیدے یا خوف میں مبتلا تھے، مگر میلگرام نے ثابت کیا کہ اطاعت کسی خاص قوم یا تہذیب کی کمزوری نہیں، بلکہ انسانی فطرت کا حصہ ہے۔ جب کسی کو اختیار کا احساس دیا جائے، خواہ وہ لیبارٹری کا سفید کوٹ ہی کیوں نہ ہو، تو انسان اپنی اخلاقی حدود بھلا بیٹھتا ہے۔ وہ سوچتا نہیں، صرف حکم مانتا ہے۔ یہی اطاعت وہ بنیاد ہے جس پر دنیا بھر کے جابرانہ نظام کھڑے ہوتے ہیں، چاہے وہ فوجی آمریت ہو، مذہبی شدت پسندی یا کارپوریٹ دنیا کا نظام۔

ہم اب بھی مختلف شکلوں میں اطاعت کی یہی نفسیات دیکھتے ہیں۔ دفتر میں افسر کے غیر منصفانہ فیصلے پر خاموش رہنا، مذہبی رہنماؤں کے غیر منطقی بیانات کو درست مان لینا، یا کسی سیاسی جماعت کی غلط پالیسی کی حمایت صرف وفاداری کے نام پر کرنا، یہ سب اسی ذہنی میکانزم کی علامتیں ہیں۔ انسان اپنے ضمیر کو خاموش کرنے کے لیے کسی نہ کسی اوپر کے اختیار کے سائے میں پناہ لیتا ہے۔

Check Also

Hum Mein Se Log

By Najam Wali Khan