Dana Ka Tohfa (3)
دانا کا تحفہ3
جم کئی بار باتوں ہی باتوں میں بتا چکا تھا کہ اپنی بیش قیمت گھڑی کے ساتھ اس نے زنجیری کی بجائے کہیں سے ایک سستی سے چمڑے کی ڈوری خرید کر لگوائی تھی، جس کی وجہ سے میٹنگ یا کسی محفل میں نکالتے ہوئے شرمندگی بھی ہوتی تھی، لیکن اس ڈوری کو بدلنے کے لئے اس کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔جب ڈیلا گھر پہنچی تو اس کے جذباتی ابال کی حدت میں کافی حد تک کمی آچکی تھی، چہکنے کی جگہ اداسی نے آن گھیرا۔
خوابوں کی جگہ حقیقت عیاں ہونے لگی، اپنی بے پناہ محبت میں اس نے جو مزید فیاضی کا ٹانکا لگایا تھا اب اس کے بارے میں سوچتے ہوئے گھر میں بکھرے سامان کو سمیٹنے لگی، خود کلامی کرتے ہوئے کہنے لگی "پیاروں کو خوش رکھنا ایک بلند پہاڑ سر کرنے کے برابر ہے جو ہر کوئی نہیں کرسکتا"، چولہے میں آگ جلا کر کافی کے لیے ایک پتیلی میں پانی ڈال کر اور گوشت کی چانپیں بھوننے کے لیے ایک کھلے منہ والی دیگچی کو اوپر چڑھا دیا تاکہ جم جب گھر آئے تو ہر چیز اسے گرماگرم پیش کرسکے
اگلے چالیس منٹ میں وہ سب کام ختم کرنے کے بعد، اپنے چھوٹے چھوٹے بالوں کی بے ترتیب چند بچ جانے والی گھنگریالی لٹوں کو سمیٹ کر باندھنے لگی،اس نے شیشے میں بغور ناقدانہ نگاہوں سے اپنے سراپے کا عکس دیکھا، خوبصورت مگر ایک ایسے طالب علم کی مانند دکھائی دے رہا تھا جس نے لمبے عرصے سے اسکول کی شکل نہ دیکھی ہو۔"اگر جم کو میں اس حلیے میں پسند نہ آئی تو کیا ہوگا" وہ خود سے کہنے لگی کہ جم تو مجھ پر ہوسکتا ہے دوسری نگاہ ہی نہ ڈالے اور کہے "یہ کیا" جزیرہ کوونی" پر ناچنے گانے والیوں جیسا حلیہ بنا لیا ہے"
لیکن وہ یہ بات نہیں جانتا کہ اس کی ڈیلا ایک ڈالر اور ستاسی سینٹ کے ساتھ اور کیا کرسکتی تھی، آہ! میں اور کیا کر سکتی تھی،شام کے سات بجے چکے تھے، گرما گرم کافی تیار تھی، اور اب گوشت کی چانپیں دیگچی میں بھونی جا رہیں تھیں، جم ہمیشہ وقت پر گھر آتا تھا، ایسا کبھی بھی نہیں ہوا کہ وہ تاخیر سے پہنچا ہو،ڈیلا نے گھڑی کے ساتھ باندھنے والی زنجیری کو تہہ کرکے مٹھی میں دبایا اور میز کے ایک طرف کونے میں بیٹھ کر وہاں دیکھنے لگی جہاں سے روزانہ جم گھر میں داخل ہوتا تھا ۔
پھر وہ وقت آن پہنچا جب پہلی منزل کی سیڑھیوں پر جم کے قدموں کی مخصوص چاپ سنائی دینے لگی۔ٹھک ٹھک اور دھک دھک کا ایک تال میل بننے لگا، چاپ جوں جوں قریب آتی جارہی تھی، دھڑکنوں کا شور بڑھتا چلا جارہا تھا۔ایک سوچ کا سایہ اس کے چہرے پر لہرایا اور ایک لمحے کے لیے تو اس کا رنگ فق ہوگیا تھا، لیکن پھر اسے یاد آیا وہ ہر کام کرنے سے پہلے کچھ دعائیہ کلمات خاموشی سے ادا کرتی تھی، آج بھی وہ خدا کو سرگوشی میں پکار کر التجائیہ انداز میں کہنے لگی، "یا خداوند کریم! جم کو میں پہلے جیسی خوبصورت ہی دکھائی دوں "۔
دروازہ کھلا جم اندر داخل ہوکر اپنے پیچھے دروازے کو بند کرنے لگا، ڈیلا نے دیکھا کہ اس کا جیون ساتھی صرف بائیس برسوں میں کتنا سنجیدہ اور کمزور ہوگیا تھا، خاندان کی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے وہ اپنی ذات سے بے نیاز ہوگیا تھا، سخت سردی میں وہ بغیر دستانوں کے تھا اور اس کا کوٹ تو بے حد پرانا ہوکر گھس چکا تھا۔۔جیسے ہی جم کی نظر ڈیلا پر پڑی تو یکدم حیرت سے اس نے یوں دم سادھ لیا جیسے کوئی شکاری اپنے شکار کی بو پاکر بے حس و حرکت دبک کر بیٹھا ہو۔
اس کی آنکھیں ڈیلا پر جم کر رہ گئیں، خاموش جھیل کی مانند ٹھہری ہوئی آنکھوں میں ایک عجیب سا تاثر تیر رہا تھا، طوفان تھا یا کچھ اور، جم کی آنکھوں کو پڑھنے میں ڈیلا کو ناکامی ہورہی تھی۔ اور یہ بات اسے مزید خوفزدہ کردینے والی تھی، کیوں کہ ان آنکھوں میں نہ تو غصہ تھا، نہ حیرانی، نہ ہی مسترد کیے جانے کا تاثر اور نہ ہی وہ آنکھیں غضبناک لگ رہی تھیں، بلکہ ان آنکھوں میں ایسا کچھ بھی نہیں تھا جس کے لیے وہ ذہنی طور پر تیار تھی،جم ایک عجیب سے سپاٹ چہرے اور غیر مانوس نگاہوں سے اسے مسلسل گھورے جارہا تھا۔
اچانک ڈیلا میز سے نیچے اتری اور گھوم کر سرعت سے جم کے پاس چلی گئی۔تقریباً روتے ہوئے کہنے لگی "جم ڈارلنگ، مجھے ایسے اجنبی نظروں سے مت دیکھو۔ عیدِ کرسمس پر میں تمھیں تحفہ دیے بغیر نہیں رہ سکتی تھی، اس لیے میں نے اپنے بال کٹوا کر فروخت کردیئے ہیں ۔ میرے بالوں کا کیا ہے یہ تو پھر سے بڑھ جائیں گے، لیکن میرے محبوب تمھیں میرے کٹے ہوئے بال برے تو نہیں لگنے چاہئیں، بتاؤ نہ کیا تمھیں میرا یہ روپ برا لگ رہا ہے؟میں کیا کرتی، میرے پاس دوسرا کوئی چارہ بھی تو نہیں تھا، اور میرے بال یہ تو اتنی تیزی سے بڑھتے ہیں کہ چند روز میں بالکل پہلے جیسے ہو جائیں گے۔
جم، خدایا! مجھ پر رحم کرو، اپنی خاموشی کو توڑ کر مجھے "عیدِ کرسمس کی مبارک دو" اور پہلے کی طرح خوشی خوشی مجھے بانہوں میں بھر لو، تمھیں تو ابھی پتا ہی نہیں کہ میں تمھارے لیے کیا شاندار تحفہ لائی ہوں،جم کے منہ سے بمشکل نکلا "ڈیلا تم نے اپنے خوبصورت بال کٹوا دیے" وہ جیسے ابھی تک صدمے میں تھا اسے سمجھ ہی نہیں آرہی تھی کہ ڈیلا کیا کہہ رہی ہے، وہ ایسا گاؤدی لگ رہا تھا جو معاملے کی تہہ تک نہ پہنچ سکتا ہو،" کاٹ کر فروخت بھی کردیئے" ڈیلا نے جواب دیا، اور سنو کیا میں تمھیں اچھی نہیں لگ رہی؟ میں ان بالوں کے بغیر بھی تمھاری پہلے والی ڈیلا ہی ہوں، کیا تمھیں ایسا نہیں لگ رہا کیا؟
جم نے ایک بار پھر پوچھا تمھارے بال کہاں چلے گئے؟ اور اپنے بیوقوفانہ سوال کے مطابق کمرے میں ادھر ادھر دیکھنے لگا کہ شاید اسے کہیں وہ زلفیں نظر آجائیں،جم تمھیں انہیں ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں ہے، ڈیلا کہنے لگی، غور سے سنو میں نے انہیں بیچ دیا یے، بیچ دیا یے، وہ اب کسی اور کی ملکیت میں چلے گئے ہیں، میرے محبوب لڑکے یہ کرسمس کی رات یوں بودے سوالوں میں ضائع نہ کرو، مجھ سے پہلے جیسی محبت سے پیش آؤ، وہ بال تمھاری خاطر کسی اور کے ہاتھ فروخت ہوگئے ہیں، میرے حسین بال جو شاید تم گن سکتے تھے، انہیں بھول کر میری اس محبت کو دیکھو جو بے حساب ہے، جیسے کوئی بھی شمار نہیں کرسکتا،
اچھا تم منہ ہاتھ دھو لو، میں تمھارے لیے بھاپ اڑاتی کافی اور گرما گرم بھنی ہوئی چانپیں لے کر آتی ہوں ۔جم جیسے اپنی غائب دماغی کی کیفیت سے باہر نکلا اور دھیرے سے پکارا "میری ڈیلا" یہ لفظ سننے کے لیے ڈیلا کی سماعتیں ترس گئی تھیں، وہ آگے بڑھی اور اپنا وجود جم کی بانہوں میں سونپتے ہوئے اسے محبت پاش نظروں سے دیکھنے لگی۔
جم کہنے لگا، ہماری ذات کے ایسے بے شمار پہلو ہیں جنہیں ہم جب پہلی بار سامنے لاتے ہیں تو ہم نہیں جانتے کہ اب ردعمل کیا ہوگا، ہمیں کم از کم ایک دوسرے کی محبت پر تو اعتبار ہونا چاہیے، جہاں دو دل صرف محبت سے جڑے ہوں وہاں ہفتے کے آٹھ ڈالر ہوں یا سال کے لاکھوں ڈالر ان میں کیا فرق ہے، ہوسکتا ہے کوئی بہت ہی ذہین شخص یا پھر حساب کتاب کا ماہر اس کا غلط جواب پیش کرے لیکن ایک وقت آئے گا جب مادی خواہشات کی بجائے محبت جو ابھی تک تاریک گوشوں میں گمنام ہے وہ ہر دل میں روشنی لائے گی۔
"میجائے" جو تمھارے لئے کرسمس کا بیش قیمت تحفہ لایا ہے شاید اس کی اب تمھیں ضرورت نہیں ہے،جم نے اپنے اوورکوٹ کی جیب سے ایک بند پیکٹ نکالا اور ٹیبل پر پھینک دیا۔میری پیاری "ڈیل" میرے بارے میں غلط اندازے نہ لگاؤ، مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کے تم بال چھوٹے چھوٹے کروا لو یا بالکل ہی سر مونڈ دو، یا پھر کسی مہنگے شیمپو کی خوشبو تمھارے زلفوں میں مہکے یا نہ مہکے، تم شاید کسی سے کم حسین ہو ایسا سوچ کر کسی دوسری لڑکی کے ساتھ تمھارا موازنہ کرنے کا میں سوچ بھی نہیں سکتا۔
لیکن جس چیز نے مجھے پہلی نطر میں پریشان اور حیرت زدہ کردیا تھا وہ وجہ شاید تم جب پیکٹ کھولو تو جان جاؤ گی۔ڈیلا نے اپنی سفید انگلیوں کو مدہم مدہم اس پیکٹ پر پھیرا اور لرزتے کانپتے ہاتھوں کے ساتھ اوپر بندھی ہوئی ڈوری کھینچ کر مومی کاغذ کو اتارا اور جیسے ہی پیکٹ کھلا تو اس کے حلق سے فرحت و انبساط سے لبریز ایک جوشیلی چیخ بلند ہوئی، مگر اگلے ہی لمحے اس کے نسوانی جذبات نے یکلخت پلٹا کھایا اور اور وہ تاسف کے ساتھ آہیں بھر کر رونے لگی۔
وہ کاتبِ قسمت کی لکھی ہوئی قسمت کو حیرانی سے دیکھنے لگی کہ بعض اوقات تقدیر ہماری خواہش اس وقت پوری کرتی ہے جب ہمارے پاس اس کے استعمال کا موقع ہی نہیں رہتا۔جم کے لائے ہوئے پیکٹ کے اندر بالوں میں لگانے والی کنگھی تھی، اور ایک نہیں بلکہ دو کنگھیاں، اور یہ وہ تحفہ تھا جس کے لیے ڈیلا نے کھڑکی میں بیٹھ کر ایک لمبا عرصہ عبادت کے انداز میں دعائیں مانگی تھیں ۔کچھوے کے خول سی بنی ہوئی خوبصورت کنگھیاں جن کے نچلے کنارے پر چھوٹے باریک جگمگاتے ہیروں کی ایک قطار تھی۔
اس نے حسرت سے ان کی طرف دیکھا جو اس کے خوبصورت بالوں کے لئے خریدی گئی تھیں لیکن اب وہ خوبصورت بال ہی نہیں رہے تھے۔یہ نہایت قیمتی کنگھیاں تھیں، اور ان کی قیمت کا اندازہ ڈیلا کو خوب تھا، ایک مدت سے اس کے دل میں اگر کوئی خواہش تھی تو وہ ان کو پانے کی تھی۔اور اب وہ اس کی ملکیت میں تھیں، لیکن اس کے دراز بال جن کی زلفوں میں کوئی زیور سج کر شان بڑھاتا وہ تو کب کے بِک چکے تھے۔
اس نے جم کا لایا ہوا تحفہ کسی بچے کی مانند چھاتی سے چمٹا لیا، مسکراتے ہوئے نیم وا آنکھوں سے اس نے جم کو دیکھا اور کہا "جم تمھیں تو پتا ہے میرے بال بڑی تیزی سے بڑھتے ہیں "اچانک کسی خیال کے تحت وہ جلے ہوئے پاؤں والی بلی کی طرح اچھلی، اور جوشیلے لہجے میں کہنے لگی، آہ! یاد آیا جم تم نے تو ابھی دیکھا ہی نہیں کہ میں تمھارے لیے کیا لائی ہوں،اس نے بےتابی سے بند ہتھیلی کو کھولا تو اس کے ہاتھ میں دبی ہوئی دھاتی زنجیری ڈیلا کے جوش و خروش کی وجہ سے کچھ زیادہ ہی چمک رہی تھی۔
ڈیلا نے کہا " جم دیکھو یہ اپنی نوعیت کا ایک منفرد اور نادر تحفہ صرف تمھارے لیے" ہے نا شاندار! کیا ایسا ہی ہے نہ؟ میں نے اپنے قصبے کے تمام بازاروں کو چھان مارا تب جا کر یہ گوہرِ نایاب ہاتھ آیا۔ اب دیکھنا تم دن میں ہزار دفعہ گھڑی نکال کر وقت دیکھا کرو گے، ذرا اپنی گھڑی مجھے دینا میں اس میں زنجیر باندھ کر دیکھنا چاہتی ہوں کہ یہ لگتی کیسی ہے،بجائے اس کے کہ جم اس کی بات کی تعمیل کرتا اور اسے گھڑی تھماتا، جم نے خود کو صوفے پر گرایا، سر کے پیچھے ہاتھ باندھ کر ٹیک لگائی اور مسکراتے ہوئے کہا، "سنو ڈیل، چند لمحوں کے لیے ان کرسمس کے تحائف کو بھول جاؤ اور محسوس کرو کہ اس فلیٹ میں بس ہم دو ہیں، یہ تحائف یقیناً بہت شاندار ہیں، اور اگر کسی کو ایسے تحائف دیے جائیں تو وہ خوشی سے پاگل ہوجائے۔
تمھیں تحفے میں تمھاری پسندیدہ کنگھی دینے کے لیے میں نے وہ اپنی خاندانی گھڑی بیچ دی ہے، "اب مزید انتظار نہیں ہوسکتا اس لیے جلدی سے گرم چانپیں اور کافی لے آؤ۔آپ سب جانتے ہیں کہ" میجائے "ایک عظیم اور دانا انسان تھا جس نے کرسمس کے تحائف دینے کی رسم ایجاد کی۔ وہ ایک بڑے سے تھیلے میں تحائف ڈال کر لاتا اور بچوں میں تقسیم کردیتا تھا۔ عقلمند ہونے کے باعث وہ تحائف بھی شاندار منتخب کرتا تھا، دانا شخص کے دیے ہوئے تحفوں میں سے اگر کہیں کسی کے پاس ایک جیسی دو چیزیں تحفے میں آجاتیں تو وہ ان سے میں ایک کسی اور کو تحفہ دے دیتے یا پھر فروخت کردیتے اور دوسری چیز استعمال کرسکتے تھے۔
یہاں میں نے آپ کو ایک فلیٹ میں رہنے والے دو بیوقوف بچوں کا قصہ نہایت خشک اور پھیکے لہجے میں سنایا۔ درحقیقت یہ بیوقوف ترین بچے تھے جنہوں نے ایک دوسرے کو تحفہ دینے کے لیے اپنی سب سے قیمتی چیز کی قربانی دے دی، اور اس کے بدلے وہ کچھ پایا جو وہ استعمال ہی نہیں کرسکتے۔لیکن آخر میں مجھے کہنے دیجئیے کے اس عقل و دانش سے بھری دنیا میں تمام لوگوں سے بڑھ کر یہ بیوقوف جوڑا ہی سب سے زیادہ عقلمند ہے، جو ہرحالت میں تحائف کا تبادلہ کرتا ہے، اگر ایک تحفہ دیتا ہے تو دوسرا ہر قیمت پر جوابی تحفہ دیتا ہے، اور یہی اصل عقلمندی ہے، اور ہر وہ شخص جو دانا ہے وہ "میجائے" ہے۔
او ہنری۔ختم شد