Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Toqeer Bhumla
  4. Dana Ka Tohfa (2)

Dana Ka Tohfa (2)

دانا کا تحفہ (2)

کمرے میں کھڑکیوں کے درمیان ایک شیشے کا ٹکڑا بھی تھا جو شاید ہی کسی نے آٹھ ڈالر کرایہ والے فلیٹ میں دیکھا ہو، اس شیشے میں اگر کوئی دبلا پتلا شخص ایک خاص زاویے سے کھڑا ہوکر دیکھنا چاہتا تو تھوڑی سی کوشش کے بعد وہ اپنے پورے سراپے کا عکس دیکھ سکتا تھا۔ عکس یہ بتانے کے لیے کافی تھا کہ آپ کیسے دکھائی دیتے ہیں ۔ڈیلا جو دبلی پتلی سی تھی وہ اتنی ماہر ہوچکی تھی کہ روزانہ یہاں کھڑے ہوکر اس شیشے میں اپنا سراپا دیکھ سکتی تھی۔اچانک وہ کھڑکی کے سامنے سے ہٹی اور شیشے کے سامنے جا کھڑی ہوئی،

اس کی آنکھوں میں بڑی شاندار چمک تھی، لیکن اس کے چہرے کی رنگت بیس سیکنڈ میں ہی اڑ گئی،اس نے تیزی سے بالوں میں لگی سوئی کو کھینچ کر انہیں آزاد کیا، اسکی زلفیں یوں کُھلنے لگیں جیسے چھوٹی چھوٹی آبشاروں کا جھرنا بہنے لگا ہو،جیمس ڈیلنیگھم ینگ کے گھرانے کی ملکیت میں دو ہی خوبصورت اور نایاب چیزیں رہ گئی تھیں جن پر دونوں کو بجا طور پر فخر تھا، ایک کوٹ کی اندرونی جیب میں رکھنے والی جیمس کی خاندانی نادر طلائی گھڑی، جو اس کے آباؤ اجداد سے ہوتی ہوئی اس کے دادا نے جیمس ڈیلینگھم کے باپ کو دی اور بعد میں اس کے باپ نے وہ گھڑی جیمس ڈیلینگھم کو دے دی۔

اور دوسری ڈیلا کی دراز قامت پاؤں کو چومتی ہوئی قیامت خیز سنہری زلفیں،ڈیلا جب کبھی بال سکھانے کی خاطر کھلی کھڑکی میں سر رکھ کر لیٹتی تو اس کی لمبی زلفیں کھڑکی سے باہر دیوار پر لہرانے لگتیں، وہ خیال ہی خیال میں دیکھتی کے لوگ بالوں کو رشک و حسد سے دیکھتے ہوئے کہتے ان زلفوں کے سامنے کسی ملکہ کے تمام ہیرے و جواہرات کے خزانے بے وقعت ہیں ۔جیمس ڈیلینگھم ینگ بھی ایسا ہی سوچتا رہتا تھا، وہ سوچتا کہ کوئی عالیشان بادشاہ اپنے تمام خزانے ایک طرف رکھے اور دوسری طرف میں اپنی طلائی گھڑی رکھ دوں تو بادشاہ بھی اسے دیکھ کر مارے حیرت و حسرت کے اپنی سنہری داڑھی نوچنے پر مجبور ہوجائے گا۔

ڈیلا کے خوبصورت بال پوری طرح بکھرنے کے بعد شفاف جھیل کی سطح پر بننے والی چمکیلی لہروں جیسے لگ رہے تھے، یہ بال جب اسکی پشت سے گرتے ہوئے پاؤں کو چھوتے تو یوں لگتا جیسے کوئی سنہری بالوں والا لباس زیب تن کیے ہوئے ہے۔وہ زلفوں کے خیال میں کھوئی ہوئی تھی کہ اچانک اسے ایک ڈالر اور ستاسی سینٹ کی یاد نے مغموم کردیا۔ بےبسی اور مفلسی نے اس کا سارا حسین تخیل چکنا چور کردیا، وہ شیشے پر نظریں جمائے ساکت کھڑی تھی اور جگہ جگہ سے ادھڑے ہوئے سرخ قالین پر موٹے موٹے آنسوؤں کے قطرے اس کی آنکھوں سے گر کر غائب ہوتے جارہے تھے۔

بھورے رنگ کی پرانی جرسی اور اسی رنگ کا بوسیدہ سا ہیٹ نکال کر پہنا، ہمیشہ کی طرح شاندار چمکتی ہوئی آنکھوں کے ساتھ ہوا میں اپنی قمیض کا دامن لہراتے ہوئے کسی تتلی کی مانند وہ دروازے سے نکل کر سیڑھیوں سے ہوتی ہوئی باہر سڑک پر آگئی۔چلتے چلتے جس چیز نے اس کے قدموں کو روک لیا وہ ایک دوکان کے باہر لگا ہوا سائن بورڈ تھا، جس پر لکھا ہوا تھا " ایم این ای، صوفرینی، ہر قسم کے بالوں کی مصنوعات کا مرکز"وہ تقریباً دوڑتے ہوئے سیڑھیاں چڑھ کر دوسری منزل پر پہنچی، اپنی پھولی ہوئی بے ترتیب سانسوں کو بحال کرنے اور اپنے حوصلے کو مجتمع کرتے ہوئے اس نے دیکھا کہ دوکان میں کھڑی، ایک لمبے قد والی میڈم، سرد مہری اور حد سے زیادہ سفید رنگ کی وجہ سے کسی طرح بھی اپنے نام کی طرح صوفرینی دکھائی نہیں دے رہی تھی۔

"کیا آپ میرے بال خریدنا پسند کریں گی؟ " ڈیلا نے پوچھا تو، میڈم نے کہا "ہاں میں بال خریدتی ہوں " تم ایسا کرو اپنا ہیٹ اتارو تاکہ میں ایک نظر تمھارے بالوں کو دیکھ سکوں ۔ڈیلا نے اس کی سرد مہری اور اجنبی لہجے سے اندازہ لگایا کہ یہ خاتون مقامی نہیں لگتی، خیر جونہی اس نے اپنا ہیٹ اتارا تو اس کی پشت پر سنہرے بالوں کی ندی بل کھاتے ہوئے بہنے لگی۔میڈم نے شاندار بالوں کو نظرانداز کرتے ہوئے جذبات سے عاری خالص کاروباری لہجے میں ہاتھ اٹھا کر کہا، اے لڑکی میں ان کے صرف بیس ڈالر تمھیں دے سکتی ہوں اس سے زیادہ نہیں،

ایک پینی کے لیے لڑنے والی ڈیلا نے بغیر کسی لمحے کی تاخیر کے کہا " لاؤ جلدی سے مجھے پیسے پکڑاؤ اور میرے بال کاٹ لو"۔ خوبصورت چاند کو جیسے گہن لگ گیا تھا، مگر وہ اس تلخی کو بھلا کر، اگلے دو گھنٹے دیوانہ وار رقصاں رہی، بیس ڈالر مٹھی میں دبائے وہ جم کے تحفے کی خاطر تحائف فروخت کرنے والی دوکانوں کو کھنگالتی پھر رہی تھی۔آخر کار گوہرِ نایاب اس نے پا ہی لیا، خود کلامی کرتے ہوئے کہنے لگی " بلاشبہ یہ صرف اور صرف میرے جم کے لیے ہی بنایا گیا ہے، اس جیسا نہ تو کسی دوکان میں ہے اور نہ ہی کوئی ایسا شخص ہے جس کے پاس یہ ہو، اس نے اچھی طرح الٹ پلٹ کر اسے دیکھ لیا تھا، وہ اَن چھوئی کنواری لڑکی کی مانند دکھائی دینے والی ایک خوبصورت ڈیزائن کی ہوئی پلاٹینم سے بنی ہوئی زنجیری تھی، جو امراء گھڑی میں باندھ کر کوٹ کے ساتھ لٹکاتے تھے،

اس تحفے نے جیسے خود ہی ڈیلا کو متوجہ کیا ہو کہ دیکھو میں یہاں سینکڑوں مصنوعی زیورات اور نوادرات سے الگ تھلگ ایک منفرد اور لاجواب چیز ہوں، مجھے خرید لو کیونکہ جم کی گھڑی میں یہ زنجیری چار چاند لگا دے گی، بلکہ اس سے گھڑی کی اہمیت اور بھی بڑھ جائے گی۔وہ تو پہلی نظر میں ہی اس زنجیر پر فریفتہ ہوگئی تھی، اس کی لاجواب بناوٹ اور پھر اسکا استعمال تو جیسے بس جم ہی کو جچتا ہے۔اکیس ڈالر کے بدلے اس نے یہ تحفہ خرید ہی لیا، باقی بچ جانے والی ستاسی سینٹ کے ساتھ وہ دیوانہ وار گھر کی طرف بھاگنے لگی۔

بھاگتے ہوئے وہ یہی سوچ رہی تھی جب جم اپنی گھڑی کے ساتھ یہ زنجیر باندھ لے گا تو کسی میٹنگ میں بلاضرورت بار بار وقت دیکھنے کے لیے جب گھڑی اور زنجیر کو نکال کر دیکھے گا تو لوگ بس دیکھتے ہی رہ جائیں گے۔

Check Also

Hikmat e Amli Ko Tabdeel Kijye

By Rao Manzar Hayat