Boll Weevil
بول ویول
قوموں کی زندگیوں میں بحران انہیں نتھار کر مزید اوپر لانے کے لیے ہوتے ہیں نا کہ دل برداشتہ ہو کر بحرانوں سے فرار اختیار کیا جائے۔
وہ سیاہ فام تھا اور غلام تھا، غلامی کی لعنت دنیا میں ابھی باقی تھی، اس کا پورا خاندان غلامی کی بیڑیوں میں جکڑا ہوا امریکی منڈی میں برائے فروخت تھا، کسی نے پورا خاندان خرید تو لیا مگر اس دور بےحسی میں ایک سے بڑھ کر ایک سانحہ ہوتا تھا، اس غلام کا خاندان کسی بَرْدَہ فَروش نے اغوا کرکے کہیں کسی دوسری جگہ پر بیچ دیا مگر وہ سیاہ فام اور اس کا چھوٹا بھائی اغوا ہونے سے بچ گئے اور اسی آقا کے پاس غلامی کی زندگی بسر کرنے لگے جس نے قیمتاً خریدا تھا۔
اس دور میں ان چیزوں کا تصور ہی بڑا ہولناک ہے کہ ایک تو انسانوں کو غلام بنایا جائے پھر اس ماں باپ اور اولاد کو ایک دوسرے سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جدا کر دیا جائے۔
اس غلام کی کہانی کو کچھ دیر کے لیے یہی پر روک کر ایک دوسری کہانی کی طرف بڑھتے ہیں پھر نقطے سے نقطہ ملا کر کئی کہانیوں کو ایک کہانی میں سمونے کی کوشش کریں گے۔
پرانے وقتوں میں امریکی ریاست الابامہ کو کپاس کا گڑھ سمجھا جاتا تھا۔ خانہ جنگی سے بمشکل باہر نکلے تھے کہ، دنیا میں پہلی جنگ عظیم کی تباہی نے اپنے پر پھیلانے شروع کر دیئے تھے۔ الابامہ کے کسان کپاس کی پیداوار کو خانہ جنگی سے پہلے والے دور میں لے جانا چاہتے تھے جہاں لاکھوں گانٹھوں کی پیداوار پوری دنیا میں فروخت کی جاتی تھی، انہی مسائل میں الابامہ کی کپاس کو ایک ایسے لشکر کا سامنا کرنا پڑا جس کا مستقل حل کسی کے بھی پاس نہیں تھا۔
میکسیکو کی حدود کو عبور کرتے ہوئے اس لشکر نے البامہ کی کپاس کو تہس نہس کرکے رکھ دیا، یہ لشکر انسانی نہیں تھا بلکہ لمبی تھوتھنی اور مختصر جسم والا نصف انچ کا ایک کیڑا تھا جسے کپاس کا کیڑا (Boll Weevil) کا نام دیا گیا۔ کیڑوں کے اس لشکر نے کپاس کاشت کرنے والے کسانوں کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی۔ یہ کیڑا کپاس کے پتوں پر بیٹھتا، وہاں انڈے دیتا، اور لاکھوں بچے پیدا کرتا جو آناً فاناً کپاس کے ڈوڈوں کو چٹ کر جاتے۔
بے تحاشا اقسام کی کیڑے مار زرعی ادویات ایجاد ہوگئی، کسان دن رات فصلوں میں لوہے کے ٹین بجاتے، خدا کا عذاب سمجھتے ہوئے چرچ میں دعائیں کی جاتی، کپاس کے کیڑے کی متبادل خوراک کے لیے دیگر ریاستوں سے کیڑے لائے گئے، ان کیڑوں کو کھانے والے پرندے لائے گئے، سینکڑوں ایکڑ اراضی میں کھڑی فصلوں کو مکمل طور پر جلا دیا گیا۔ مگر اس کیڑے نے تمام تر حربوں اور ادویات کے خلاف قوت مدافعت بنا لی تھی، وہ کپاس کو کھا کر اردگرد کے جنگلوں میں روپوش ہو جاتا، جیسے ہی نئی فصل تیار ہوتی وہ نئی نسل کے ساتھ حملہ آور ہو جاتا۔
الابامہ ریاست کا کسان دن رات اسی تگ و دو میں رہتا کہ کس طرح اس عذاب سے نجات حاصل کی جائے، کیوں کہ صرف 3 سالوں میں، پیداوار میں 70 فیصد کمی آئی تھی، 1 سے 7 ملین گانٹھوں سے زیادہ کی فصل 1917 میں صرف 515,000 گانٹھوں تک محدود ہو کر رہ گئی تھی۔ الابامہ کا کسان بے تحاشا قرضے کے نیچے دب چکا تھا، اس کیڑے سے کسی طور بھی نجات نہ پا کر لوگوں کا رجحان چوری چھپے ہجرت کرنے یا خودکشی کی طرف بڑھنے لگا تھا۔
اب آتے ہیں سیاہ فام غلام کی کہانی کی طرف۔
غلام پیدائشی بدقسمت ہوتے ہیں، ان کا کوئی باقاعدہ نام، شناخت یا حوالہ نہیں ہوتا، ان کی شناخت دو طرح سے ہوتی تھی، یا تو بَرْدَہ فَروش کا نام غلام کے نام کے طور پر لکھا جاتا تھا، یا پھر خریدنے والے آقا کے نام پر غلاموں کو نام دیا جاتا تھا۔ اسی غلام کو بھی نئے آقا کی مناسبت سے نام دیا گیا۔ نئے آقا کی بیوی ذرا رحمدل تھی، وہ ان غلام بچوں کو تھوڑی بہت دنیاوی تعلیم دیتی رہتی تھی۔ غلام لڑکپن میں داخل ہوا کہ امریکہ میں اعلان ہوگیا کہ غلامی کو باقاعدہ ختم کر دیا گیا ہے، اس لیے اب غلاموں کی خرید و فروخت کرنا یا انہیں گھروں میں غلام رکھنے پر پابندی ہے۔
اس غلام کے گھرانے والوں نے اس غلام کو آزاد کرکے اپنے گھر میں اپنا نام دے کر اپنے بچوں کا درجہ دے دیا۔ قانون تو بن گئے مگر سفید کا سیاہ کے متعلق ذہن بدلنے میں ابھی وقت باقی تھا۔ وہ سیاہ فام لڑکا جسے اپنے مالک کے نام پر George Washington Carver کا نام دیا گیا، اسے نزدیکی یا دور دراز کے کسی بھی اسکول میں سیاہ فام ہونے کی وجہ سے داخلہ نہ مل سکا۔ وہ کئی ریاستوں کی خاک چھانتے چھانتے، کسی نہ کسی طرح پڑھنے میں کامیاب ہوگیا۔ (اس کی جدوجہد کی طویل داستان ہے)
اس نے پڑھائی میں زراعت کے شعبے کو پسند کیا اور اسی شعبے میں پی ایچ ڈی کی۔ ایک وقت آیا کہ وہ جس ریاست میں بطورِ غلام فروخت ہوا تھا اسی ریاست میں زراعت کے شعبے کا ڈائریکٹر بن گیا۔ اس کے پاس ہزاروں ڈالر کی شکل میں جمع پونجی تھی، وہ تمام دولت اس نے زراعت کے شعبے میں ترقی اور ایجادات کے لیے لیبارٹری بنانے میں خرچ کر دی۔ اس نے ایک گاڑی میں گشتی لیبارٹری بھی بنائی، جس کا نام "Jesup wagon" "یوسف کی گاڑی" رکھا گیا، یوسفؑ بھی مصر کے بازاروں میں فروخت ہو کر عزیز مصر بن گئے تھے، اسے بھی اپنی کہانی عزیز مصر جیسی لگتی تھی۔
اسی گاڑی میں ایک دن وہ الابامہ پہنچ گیا۔ اور وہ دن الابامہ کی تقدیر اور امریکہ کی زراعت کا نقشہ بدلنے کا دن تھا۔ اس نے الابامہ کے کسانوں کو قائل کیا کہ کیڑوں کو ختم کرنے کے مختلف تجربات نے ان کی زمینوں سے نائٹروجن ختم کر دی ہے، لہٰذا یہاں کپاس کاشت کرنا فضول ہے، آپ لوگ میری دریافت کردہ مونگ پھلی کی نسل کاشت کریں جو آپ کی مٹی اور دھرتی کی تقدیر بدل کر رکھ دے گی۔
چند سال مونگ پھلی اور چند سال کپاس و دیگر فصلوں کو بدل بدل کر کاشت کرنے سے زمین کی زرخیزی اور کسان کی خوشحالی دونوں بڑھیں گی۔ کپاس کے کاشتکاروں کو مونگ پھلی کاشت کرنے پر قائل کرنا ناممکن سا کام تھا۔ اس نے کسانوں کے اکٹھ سے مختصر گفتگو کرتے ہوئے کہا
"جب قدرت واضح نشانیوں کی صورت میں تبدیلی کو آپ کے دروازے پر دستک دینے کے لیے بھیجے تو اس دستک سے کان بند کرنے کی بجائے فوراً آگے بڑھ کر دروازہ کھولیں، کیونکہ تبدیلی کی وہ دستک، خوشحالی کی دستک ہوتی ہے، اس لمبی تھوتھنی والے کیڑے کو تبدیلی کا استعارہ سمجھیں اور ایسی فصل کاشت کریں جو اس کے کام کی بھی نہ ہو اور مٹی کو نائٹروجن بھی مہیا کرے۔ "
اس نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا اور الابامہ میں کاشت شدہ مونگ پھلی نے پہلے سال ہی کسانوں کے قرضے اتار کر ان کے چہروں پر خوشحالی بکھیر دی۔ اس وقت دنیا بھر میں کھائے جانے والے پی نٹ مکھن، چاکلیٹوں جیسے مارس، سنکر وغیرہ میں الابامہ کی مونگ پھلی استعمال ہوتی ہے۔ کہتے ہیں کہ اگر پوری دنیا میں مونگ پھلی کاشت ہو تو مونگ پھلی کا دارالحکومت الابامہ ریاست ہوگی۔
الابامہ کا کسان جو کپاس کے اس کیڑے کو زحمت اور عذاب سمجھتا تھا، وہی کسان اس کیڑے کو تبدیلی اور خوشحالی کا استعارہ سمجھتے ہوئے رحمت سمجھنے لگا۔ وہی کیڑا جس نے کئی برسوں تک الابامہ کے کسانوں کی ناک میں دم کر رکھا تھا، انہی کسانوں نے الابامہ کے مرکزی چوک میں اسی کیڑے کا مجسمہ بنا کر نصب کر دیا۔ اور یہ دنیا بھر میں حشرات کی نسل Boll Weevil کو خراج تحسین پیش کرنے کا اپنی نوعیت کا پہلا مجسمہ تھا۔