Baatein Tasaliyan Thi, Haqiqat Nahi
باتیں تسلیاں تھیں، حقیقت نہیں

کبھی آپ نے سوچا ہے کہ اگر زندگی کے بارے میں جو کچھ ہمیں بچپن سے بتایا گیا، وہ سچ نہ ہو تو؟ ہم سب ایک ہی راستے پر چلتے رہے ہیں، بس اس یقین کے ساتھ کہ یہ درست ہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ کامیابی کی شکل کیا ہونی چاہیے، محبت کیسی لگتی ہے، خوشی کہاں ملتی ہے اور ہم ان باتوں پر ایمان لے آئے، بغیر یہ سمجھے بوجھے کہ شاید یہ سب کسی اور کے تجربے کے اصول تھے، ہمارے نہیں۔
زندگی دراصل اتنی ہی سادہ ہے جتنی ہم نے اسے پیچیدہ بنا دیا ہے۔ لیکن اگر ہم تھوڑی دیر رک کر، سچائی کو خوف، تعصب اور پہلے سے بنے پختہ عقائد سے ہٹ کر دیکھیں، تو پتا چلتا ہے کہ بہت سی باتیں جو ہم نے مانی، وہ صرف کسی اور زمانے کے کسی اور شخص کے لیے تسلیاں تھیں، حقیقت نہیں۔
ہمیں سکھایا گیا کہ اپنے شوق کے پیچھے چلو، کامیابی خود ملے گی۔ مگر سچ یہ ہے کہ صرف شوق کافی نہیں ہوتا۔ شوق کو اگر نظم و ضبط، محنت اور سیکھنے کی لگن والا ایندھن نہ ملے تو وہ بوجھ بن جاتا ہے۔ کامیابی ان لوگوں کو ملتی ہے جو روز تھوڑا بہتر ہونے کی کوشش کرتے ہیں، چاہے دل نہ بھی چاہے۔ شوق شروعات ضرور ہے، مگر منزل تک پہنچنے کے لیے استقامت چاہیے۔
ہم نے یہ بھی مان لیا کہ اچھے کام کرنے والوں کے ساتھ ہمیشہ اچھا ہوتا ہے۔ مگر زندگی کا نظام ایسا نہیں۔ یہاں انعام ان کو ملتا ہے جو قدم بڑھاتے ہیں اور مسلسل سفر میں رہتے ہیں، چاہے راستہ کیسا بھی ہو۔ قسمت اُن کا ساتھ دیتی ہے جو انتظار کے بجائے عمل کرتے ہیں۔ صبر ضروری ہے، مگر صرف تب جب تم چلتے رہو۔
محبت کو ہم نے ہمیشہ آخری سچ مانا۔ مگر محبت اگر احترام، باہمی سمجھ اور جدوجہد کے بغیر ہو تو دیرپا نہیں رہتی۔ رشتوں کے لیے صرف چاہت کافی نہیں، ساتھ نبھانے کے لیے کردار چاہیے۔ محبت ایک احساس ہے، مگر رشتہ ایک ذمہ داری ہے۔
خوشی کے بارے میں بھی ہمیں غلط سکھایا گیا۔ خوشی کوئی منزل نہیں، ایک کیفیت ہے جو اس وقت خود چل کر آتی ہے، جب زندگی میں جستجو اور لگن بامعنی ہوتی ہے۔ جتنا ہم خوشی کو ڈھونڈنے نکلتے ہیں، وہ اتنی ہی دور جاتی ہے۔ شاید اصل سکون یہی ہے کہ ہم جو کچھ ہیں، جہاں ہیں، اس میں موجود رہنا سیکھ لیں۔
وقت کے بارے میں بھی کہا گیا کہ یہ سب زخم بھر دیتا ہے۔ مگر وقت صرف پردہ ڈالتا ہے، زخم نہیں بھرتا۔ شفا تب آتی ہے جب انسان اپنے درد کو تسلیم کرتا ہے، اس سے بات کرتا ہے اور اس کے ساتھ جینا سیکھ لیتا ہے۔ وقت گزرتا ہے، مگر healing تب ہوتی ہے جب دل سمجھتا ہے کہ دکھ بھی ایک استاد ہے۔
ہمیں یقین دلوایا گیا کہ لوگ ہمارے خیرخواہ ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ہر کوئی تمہیں اپنی ضرورت اور مفاد کے زاویے سے دیکھتا ہے۔ یہ بات تلخ ضرور ہے، مگر حقیقت ہے۔ لہٰذا خود کو ہر کسی کے لیے ہر وقت دستیاب مت رکھیں۔ اپنے حلقہ احباب، اپنے سکون اور اپنے سچ کے ذمہ دار آپ خود ہیں، لہٰذا دوسروں سے وفاداری کی توقع نہ رکھیں۔
ہم سے کہا گیا کہ ہمیشہ مثبت رہو۔ مگر انسان ہونے کا مطلب کسی فلم کا پوسٹر نہیں جہاں ہیرو مسکراتا رہتا ہے، بلکہ کبھی ہم ٹوٹتے ہیں، کبھی غصہ کرتے ہیں اور کبھی الگ تھلگ ہونا چاہتے ہیں۔ رونا کمزوری نہیں، بلکہ دل کا طریقہ ہے خود کو صاف کرنے کا۔ ہر وقت کی مثبتیت دل کی موت ہے، تمھاری سچّی طاقت یہ ہے کہ تم ہر جذبہ محسوس کرو، ردعمل میں ذہن اور دل کو توازن کے ساتھ استعمال کرو اور پھر بھی آگے بڑھنے کا انتخاب کرو۔
ایک دن سب کچھ سمجھ آ جائے گا، یہ بھی ایک وہم ہے۔ زندگی کبھی تمام جواب نہیں دیتی، بلکہ سوال بدلتی رہتی ہے۔ شاید زندگی کا اصل ہنر یہ ہے کہ ہم غیر یقینی میں بھی مطمئن رہنا سیکھیں۔ یقینی کچھ بھی نہیں ہوتا نہ ہی ہمیں ہر وجہ کا جواب ملتا ہے، مگر چیزوں کو سمجھنے سے سکون مل سکتا ہے، بشرطیکہ ہم زندگی کو سمجھنے کی کوشش کریں، قابو پانے کی نہیں۔
کہا گیا کہ پیسہ خوشی نہیں خرید سکتا۔ شاید یہ سچ ہو، مگر پیسہ سہولت، آزادی اور اختیار ضرور دیتا ہے۔ غربت انسان کو عقلمند نہیں، تھکا ہارا ہوا بنا دیتی ہے۔ پیسہ برا نہیں، بلکہ یہ دکھانے میں مدد کرتا ہے کہ تم اندر سے کیسے تھے۔ یہ خوشی نہیں خرید سکتا، مگر زندگی کے لیے آسانیاں ضرور پیدا کرتا ہے۔
اور آخر میں، سب سے بڑا دھوکا، یہ خیال کہ ہمارے پاس بہت وقت ہے۔ نہیں، وقت ہمیشہ کم ہوتا ہے۔ لوگ صحیح وقت کے انتظار میں زندگی گزار دیتے ہیں، مگر کوئی لمحہ صحیح یا غلط نہیں ہوتا، بس موجود ہوتا ہے۔ تمہاری زندگی ابھی ہے، یہ سانس، یہ لمحہ۔ باقی سب وعدے ہیں جو وقت نہیں نبھاتا۔

