Aik Paheli
ایک پہیلی
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ہم تقریباً بیس کے لگ بھگ افراد ایک مشترکہ پراجیکٹ پر کام کررہے تھے۔ ہم سب مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے لوگ تھے، ہمارے پراجیکٹ کا ڈائریکٹر ایک جرمن شخص تھا۔ میں ان کے ساتھ اکیلا پاکستانی تھا، مجھے ساتھ شامل کرنے کی وجہ یہ تھی، کہ اگر کوئی کام سیدھے طریقے سے نہ ہو تو میں بطورِ پاکستانی ضرور کوئی نہ کوئی جگاڑ لگا لوں گا۔ سخت گرمی کے دن تھے۔ چھ سات دن بعد سب کو ایسا لگنے لگا، جیسے یہ پراجیکٹ ہم سب کے لیے مشکل ہے، یا پھر ہمیں صحیح طرح سے اس کی سمجھ نہیں آرہی تھی۔
ایک روز پراجیکٹ ڈائریکٹر آیا اور کہنے لگا، میں تم لوگوں کو ایک پہیلی سناتا ہوں، جمعرات تک دو دن کا وقت ہے، جس نے پہیلی بوجھ لی اسے اس پراجیکٹ سے ہٹا کر کسی آسان پراجیکٹ پر لگا دیا جائے گا۔ پہیلی یہ تھی کہ"سو میٹر کے کھمبے پر ایک بندر اوپر چڑھنے کی کوشش میں، روزانہ صبح سے لےکر شام تک، دو میٹر اوپر چڑھنے میں کامیاب ہوتا ہے، اور شام کے بعد جب وہ سوجاتا ہے تو ایک میٹر نیچے کھسک آتا ہے، روزانہ اگر وہ اسی طرح دو میٹر اوپر اور ایک میٹر نیچے ہوتا رہے تو، کل کتنے دنوں میں وہ اوپر چڑھنے میں کامیاب ہوجائے گا؟"
میرے ساتھ ایک ایرانی کولیگ تھا، مجھے کہنے لگا، میرے تو وارے نیارے ہوگئے، مجھے تو اس پہیلی کا جواب پہلے سے پتا ہے، میں نے کہا، یار جواب اتنا مشکل نہیں ہے، ویسے مجھے بھی پہلے سے پتا ہے۔ تقریباً سب نے ہی دو راتیں ایک دوسرے کے ساتھ اس پہیلی کے ممکنہ درست، یا پھر کسی نئے پہلو سے جواب پر خوب بحث کی۔ جمعرات کے روز سب ہی پرجوش تھے، ہمارا کام دن بارہ بجے تک ہوتا تھا، اس کے بعد ہم اپنی رہائش گاہوں کو لوٹ آتے تھے۔ اس دن گیارہ بج گئے مگر ڈائریکٹر نے نہ ہی کسی سے جواب پوچھا اور نہ ہی اس سوال کے متعلق کوئی گفتگو کی۔ ہم سب کے اندر ایک بے چینی تھی، اور ہم سب خود سے اس موضوع کو شروع کرنا چاہ رہے تھے۔
ٹھیک بارہ بجے ہم سب نے اپنا اپنا کام تقریباً بے دلی سے نمٹایا، اسی دوران ڈائریکٹر صاحب آگئےاور کہنے لگے کوئی ایسا شخص جس نے گزشتہ دو دنوں میں میرے پوچھے گئے سوال کے متعلق سوچ بچار نہ کی ہو؟ ہم سب نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا، کیونکہ ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں تھا جس نے جواب نہ تلاش کیا ہویا بحث نہ کی ہو، جب کوئی بھی نہ نکلا تو، ڈائریکٹر صاحب مسکراتے ہوئے کہنے لگے، آج کے دن تم لوگوں کی بے چینی سے اور گذشتہ دو روز، جواب کے متعلق شد و مد سے کی گئی سوچ بچار سے بخوبی آگاہ ہوں۔
مجھے پتا ہے کہ اس کا جواب سب نے سوچ لیا ہے اور ہر کوئی جواب دے کر یہاں سے نکلنا چاہتا ہے، مجھے اب اس پہیلی کا جواب نہیں چاہیے میں بس یہ جاننا چاہتا ہوں، کہ تمھارے پروفیشن کا جو کام تم لوگوں کے ذمے لگایا جاتا ہے، تم لوگوں کو نہ تو اس کی سمجھ آتی ہے اور نہ ہی تم کسی پروفیشنل مشکل کا حل تلاش کرنے کے لیے سر جوڑتے ہو، مگر کوئی بھی ایسا کام جو آپ لوگوں کے متعلقہ بھی نہ ہو اور اس میں فائدہ بھی نہ ہو، تم لوگ اپنی ساری توانائیاں وہاں فضول خرچ کردیتے ہو۔
اگر تم لوگ اپنے کام سے سو فیصد مخلص ہوجاؤ تو، نہ مجھے پہیلیاں سنانی پڑیں اور نہ تمھیں اپنے شب و روز فضول جوابات کی تلاش میں ضائع کرنے پڑیں۔ اس واقعے کو یاد کرکے مجھے لگتا ہے کہ پیارے وطن میں تقریباً ہم سب کا کچھ ایسا حال ہوچکا ہے، ہم ہر اُس کام کے متعلق دماغ لڑاتے ہیں، مشورے اور رائے دیتے ہیں، جو سرے سے ہمارا ہوتا ہی نہیں ہر شخص اپنا جوتا چھوڑ کر دوسرے کے جوتے میں پاؤں پھنسا کر اور ٹانگ اڑا کر بیٹھا ہوا ہے۔