Aik Nasar Para
ایک نثر پارہ
مدت مدید سے ایک ناول لکھنے کی کوشش کررہا ہوں جس کے اندر ایک دوسرے سے جڑی ہوئی شاید چھبیس کہانیاں ہیں، ہر نئی کہانی پرانی کہانی کے بطن سے جنم لیتی ہے اور کہانی مرنے سے پہلے ایک نیا جنم دے کر بچھڑ جاتی ہے۔
زیر تکمیل ناول سے "ایک نثر پارہ":
پہاڑوں کے دامن میں موسم معتدل ہونا شروع ہوچکا تھا، برف دھیرے دھیرے پگھل کر چوٹیوں سے نشیب کی طرف یوں ڈھلک رہی تھی جیسے کسی دیومالائی حسن کی دیوی کا مجسمہ زیر نقاب ہو اور اس مجسمے پر پڑا ریشم کا آنچل آہستہ آہستہ سرکتے سرکتے مجسمے کے خال وخد نشیب و فراز واضح کرتا قدموں میں گرتا جارہا ہو۔
پہاڑوں سے جب نقرئی لبادے اتر رہے تھے تو اندر سے سیاہ رنگ کے پتھروں کا ظہور ہو رہا تھا، شاید سارا حسن برفانی پیرہن کی وجہ سے تھا برہنہ پربت تو ہیبت ناک تھے۔
خواجہ بابلی کی ٹریننگ کے اختتام پر اس کی پہلی تعیناتی سرحد سے جڑی سب سے آخری چوٹی پر تھی، اور دو دن بعد رخت سفر باندھ کر روانگی کا حکم مل چکا تھا۔
کرنل صاحب نے خواجہ بابلی کو بلا کر تربیت مکمل کرنے کی مبارکباد اور اگلے محاذوں پر جانے کی تسلی دی اور کہا کہ جوان خون کا یہی سب سے بہترین مصرف ہے کہ سرحد پر فخر سے پہرا دیتے ہوئے اس کا سینہ ہمیشہ دشمنوں کی سمت ڈھال بنا رہے۔ کرنل صاحب نے اس سے وعدہ کیا کہ بشرطِ زندگی جیسے ہی اگلے محاذوں سے واپسی ہوگی وہ اسے خود اپنے ساتھ ریاست عدن میں دو ماہ کی رخصت پر چھوڑنے جائیں گے۔
دو دن گزرتے دیر کتنی لگتی ہے۔ برف کے پار لے کر جانے والی گاڑیاں تیار کھڑی تھیں، ہر سپاہی کا ذاتی اور عسکری سامان لادا جا رہا تھا، اپنا ٹرنک لادتے ہوئے خواجہ بابلی کے دل میں ہڑک اٹھی کہ کاش اس سفر سے پہلے شہر بانو سے ایک آدھ ملاقات ہوجاتی تو اس کا چہرہ ہی جی بھر کر دیکھ لیتا۔ اس نے شادی کے بعد کبھی بھی شہربانو سے اپنی اولاد کے متعلق کوئی بات نہیں کی تھی، نہ ہی کبھی ذکر چھیڑا کہ بیٹی ہو تو کیا نام رکھیں گے اور بیٹا ہو تو کیا، مگر جب سے اسے شہر بانو کے متعلق خبر ہوئی تھی کہ وہ امید سے ہے تو وہ ہر روز سینکڑوں نام سوچتا اور پھر خود ہی رد کردیتا، اسے کوئی بھی نام ایسا پسند نہیں آتا تھا جس پر شہر بانو بھی راضی ہوجاتی، شادی کے چند ماہ میں ہی وہ جان گیا تھا کہ وہ تھوڑی بہت ضدی ہے اور جو ٹھان لے اس سے ہٹانے والا کوئی بھی نہیں تھا۔
خواجہ مقدونی ہزاروں سوچوں کے گنجل میں الجھا ہوا تھا جب گاڑیاں اگلے مورچوں کی جانب روانہ ہورہی تھیں تو اسے ایسا لگا جیسے کسی دلہن کو اس کی مرضی کے بغیر ڈولی میں بٹھا دیا گیا ہو۔
شام ڈھلنے کے قریب تھی اور آزاد پنکھ پکھیرو چہچہاتے ہوئے اور دائروی رقص کرتے ہوئے آشیانوں کو لوٹ ریے تھے۔ شام کا وقت مختصر ہی سہی ہو مگر پاتال تک اترتی شام ہزار رنگوں کے پیرھن باندھے لاکھ اہتمام سے آتی ہے اور ایسی شام جو برف زاروں میں پھیل رہی ہو اس کا سحر تو پاگل کر دیتا تھا۔ سورج جیسے ہی زمین سے اپنی کرنیں واپس کھینچتا، تو سنہری دکھائی دیتی برف یکلخت سفید پڑ جاتی اور شام کے سائے وادیوں میں لپکنے لگتے، افق سمٹ کر آنکھوں میں اتر آتا تھا، اس پر شفق کے کناروں پر دراز ہوتی گلابی اور زردی مائل دھاریاں جیسے کسی فاتح کے ہاتھ میں لہو ٹپکتی تلوار پر لہراتے ہوئے لال پھریرے۔