Aam Admi Aur Sifarti o Sadarti Adaab
عام آدمی اور سفارتی و صدارتی آداب

پیشہ ورانہ زندگی میں ایسی بریفنگز سے واسطہ پڑتا رہتا ہے، جہاں بتایا جاتا ہے کہ ملاقات کرتے ہوئے کن باتوں کا خیال رکھیں، لباس کس قسم کا ہو، جوتے کا رنگ اور اس کی پالش کتنی گہری یا چمکدار ہونی چاہیے، ٹائی کس رنگ کی ہو، مسکراہٹ کتنی دیر تک قائم رہے، مصافحے میں ہاتھ کس قوت سے دبایا جائے اور نشست و برخاست کے انداز کیسے ہوں۔ یہ سب تفصیلات سن کر پہلے پہل تو حیرت ہوتی تھی، لیکن پھر سمجھ آیا کہ یہ محض ظاہری لوازمات نہیں بلکہ طاقت، اثر و رسوخ، برتری یا اعتبار و اعتماد حاصل کے نفسیاتی اشارے ہیں۔
یہ ہدایات سفارتی دنیا یا طاقت کے ایوانوں کے لیے تو کسی حد تک قابلِ فہم ہیں، جہاں ایک غلط اشارہ یا آدابِ نشست و برخاست سے ناواقفیت مذاکرات کو ناکام بھی کرسکتے ہیں اور تعلقات کو بگاڑ بھی سکتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جب یہی معیار بنا کر عوامی زندگی میں گھسیڑ دی جائیں تو اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ آج سوشل میڈیا پر ہمیں یہی سکھایا جاتا ہے کہ نیند بہتر کرنے کے لیے بیڈ روم کا رنگ فلاں ہو، شخصیت نکھارنے کے لیے پرفیوم یوں لگائیں، اعتماد بڑھانے کے لیے ہاتھ یوں ہلائیں، یوں کھڑے ہوں، یوں بیٹھیں اور کامیابی کے لیے بالوں کو اس خاص انداز میں سنواریں۔
یعنی جو چیزیں کبھی ایوانِ اقتدار اور عالمی سفارت کاری کی سطح پر علامتی اہمیت رکھتی تھیں، وہ اب ہر شخص کے لیے لازمی معیار کے طور پر بیچی جارہی ہیں۔ نتیجہ یہ کہ ایک عام آدمی جسے اپنی زندگی سنبھالنے کے لیے پہلے ہی کئی مشکلات کا سامنا ہے، اب ہنس کی چال چلنے کی کوشش میں الجھ جاتا ہے۔ اس کوشش میں وہ اپنی اصل صلاحیتوں سے محروم ہوتا ہے اور ایک لاحاصل یا لایعنی دوڑ میں شامل ہوجاتا ہے جو دراصل چوہے کی دوڑ سے زیادہ کچھ نہیں۔
یہی وہ مقام ہے جہاں نفسیات ہمیں خبردار کرتی ہے۔ ایڈلر کے نزدیک یہ احساسِ کمتری کی جڑ ہے اور ایرک فرام نے اسے مصنوعی آزادی کہا ہے۔ انسان سمجھتا ہے کہ وہ انتخاب کر رہا ہے، مگر دراصل وہ مارکیٹ اور میڈیا کے دباؤ کا غلام بن چکا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے: کیا واقعی پرفیوم لگانے کا مخصوص طریقہ، کھانا کھاتے ہوئے گلاس دائیں ہو یا بائیں، بالوں کا ایک خاص اسٹائل، یا دروازہ کس انداز سے بند کرنا اور پتلوں کا پائنچہ کہاں تک ہو ہماری کامیابی کی ضمانت ہے؟ کیا ایک طالب علم کی ذہانت، ایک استاد کی بصیرت، ایک مزدور کی محنت یا ایک والدہ کی تربیت ان چھوٹے چھوٹے وضعی اصولوں کے بغیر بے معنی ہے؟
اگر ایسا مان لیا جائے تو پھر انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ایجادات اور کارنامے، جن کے پیچھے سادہ مزاج، غیر رسمی، حتیٰ کہ تنہائی پسند اور ظاہری حلیے سے لاپروا لوگ تھے، وہ سب کس کھاتے میں جائیں گے؟
اصل مسئلہ یہ ہے کہ جب سفارتی یا صدارتی آداب کو عامی کے لیے بھی معاشرتی معیار بنا دیا جاتا ہے تو سوچنے اور تخلیق کرنے والے دماغ سکڑ جاتے ہیں۔ معاشرہ ایسے افراد پیدا کرتا ہے جو زیادہ سے زیادہ نقل کرنے پر زور دیتے ہیں، لیکن اپنی پہچان اور اپنی راہ بنانے کی صلاحیت کھو بیٹھتے ہیں۔ یہی وہ خلا ہے جو احساسِ کمتری کو بڑھاتا ہے اور یہی وہ بیماری ہے جسے آج کا میڈیا لائف اسٹائل کے نام پر بیچ رہا ہے۔

