Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Tauseef Rehmat
  4. Zard Patton Ka Mausam

Zard Patton Ka Mausam

زرد پتوں کا موسم

پنجاب میں سردیوں کا موسم ٹھٹھرا دینے کی حد تک ٹھنڈا ہو جاتا ہے اور بالخصوص اگر دھواھند (سموگ) سے پہلے وقتوں کی بات کریں تو سردی معاشقعے کی حد تک دلکش اور دلنشیں ہوا کرتی تھی۔ پہلے پہل تو راوی (بڈھے دریا) کو باقاعدہ لاہور کی سرحد کا درجہ حاصل تھا۔ لیکن لگتا ہے کہ ریلوے والوں کو اس سرحد بندی پہ اعتراض تھا جو وہ اسے سرحد نہیں مانتے تھے۔ لاہور اور شاہدرہ کے ریلوے اسٹیشنز کے درمیان بھی محکمے نے ایک اور اسٹیشن بادامی باغ میں بنانا ضروری خیال کیا۔ یوں گماں گزرتا ہے کہ لاہور داخلے سے قبل اس بادامی باغ ریلوے اسٹیشن کا مقام "پاوَڈر روم" والا ہی ہے۔ جس میں سواریوں کو آخری موقع دیا جاتا ہے کہ اپنی وضع قطع اور سامان کی نوک پلک سنوار لیں کہ منزل اب آیا ہی چاہتی ہے۔

ایسے ہی ایک ٹھٹھرتے دسمبر میں لاہور کے مضافات میں ایک مشہور نجی ادارے میں نوکری کا مژدہ ملا۔ یاداشت تو اب لگتا کہ ابنِ انشاء کے مقولے جیسی ہوگئی ہے "جس لائن میں کھڑے ہوتے ہیں وہی لائن آہستہ چلنی شروع ہو جاتی ہے" جس یاد کو سوچتے ہیں اسی کی پوّن آہستہ چلنا شروع ہو جاتی ہے۔ رہی سہی کسر کرونا نے پوری کر دی کہ لائن دھکا سٹارٹ بن چکی ہے۔ پھر بھی غالب گمان ہے کہ 17 دسمبر کو حاضری کا حکم ملا تھا لیکن ایک روز پہلے ہی اپنا سازوسامان لے کے پہنچ گئے کہ رات نیند پوری کرکے صبح تروتازہ حالت میں نئی نوکری کے درپیش مسائل سے الجھنا اور نپٹنا شروع کریں گے۔ شام جھٹپٹے کا وقت تھا، گاڑی والا باہر بیرونی سڑک پہ اتار کے چلا گیا۔ اساسی دروازے (مین گیٹ) سے سامان اٹھا کے پیدل کمرے کی طرف چلنا پڑا تو بڑی کوفت ہوئی کہ معلوم نہیں رہائشی کمرہ کتنا دور ہوگا۔ لیکن پہلا موڑ مڑتے ہی حالات و واقعات و کیفیات سب بدل گئیں۔

سامنے خم دار سڑک، سڑک کے دونوں اطراف بلند و بانگ درخت، سڑک بھی یوں درختوں کی شاخوں سے ڈھکی ہوئی کہ سڑک پہ چھت کا گماں ہو، فضا میں خنکی، سڑک پہ بکھرے خشک زرد پتے جن پہ چلنے سے جلترنگ کا سا احساس ہو، ناک اور کانوں کی لووَں کو یخ کرتی ہوا ہی مسرور کرنے کو کافی تھی کہ ہوا کے ساتھ ساتھ ڈیسٹیلری سے آنے والی خوشبو ماحول کو دوآختہ کر رہی تھی۔ پہلی فرصت میں سامان کمرے میں پھینکا اور سڑک کے کم از کم تین چکر لگائے ہوں گے۔ یہ تو ایسے ہی ہوا کہ جیسے کوئی دیرینہ خواہش پوری ہوگئی ہو کہ سب بھول بھال کے مٹر گشت کو چل نکلے۔

صحرانووردی میں آئے تو پتا چلا کہ موسم بدلنا کس نعمت کا نام ہے۔ یکساں موسم اور ایک سے ماحول کی کیفیت یکسانیت کا شکار کر دیتی ہے۔ جسم بھی ایک سے ماحول کا ایسا عادی ہو جاتا ہے کہ اس میں ذرا سا بدلاوَ بھی طبیعت پہ گراں گزرتا ہے۔ اللہ کریم نے اس کائنات کی تخلیق میں کوئی کمی یا کجی نہیں رہنے دی۔ درختوں کے لئے کیسا نظام بنایا کہ ہر سال خزاں میں سب پرانے پتے درختوں سے ٹوٹ جاتے ہیں۔ یہ پتے گرنے سے پہلے اس درخت کا سب فاضل مواد بھی ساتھ لے جاتے ہیں۔ پت جڑھ میں ہر طرف ٹنڈ منڈھ سے درخت نظر آتے ہیں جو سبھی اپنے اپنے پتے گرا کر اپنے فاضل مواد اور اپنی ضایعات (ویسٹیج) سے چھٹکارا پا لیتے ہیں۔ گو کہ یہ پت جڑھ وقتی طور پہ ان درختوں کو ان کی خوبصورتی سے محروم کر دیتا ہے لیکن یہ انجام کی نہیں بلکہ ایک نئی شروعات کی علامت ہے۔

آج کے اس تیز رفتار دور میں جہاں آگے بڑھنے کی دھن اور خوب سے خوب تر کی جستجو انسان کو ہلکان کئے رکھتی ہے وہیں ایسا ہی پت جڑھ جیسا کوئی موسم حضرتِ انسان کو بھی درکار ہے کہ جس میں وہ اپنی تمام اضافی، غیر ضروری، ناقابلِ استعمال، زائد المعیاد اور بےہنگم سوچوں سے چھٹکارا پا سکے۔ یہ سب بیان کردہ عناصر آگے بڑھنے کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہوتے ہیں۔ جب بھی پت جڑھ یا خزاں کا موسم میسر آئے تو اپنی دیکھ ریخت کے دوران ان لایعنی عناصر سے نجات پانے کی بابت بھی عملی اقدام ضرور کرنے چاہئیں کہ یہ فاضل عناصر گریں گے تو ان کی جگہ نئی امیدوں، نئے افق اور نئے امکانات کی کونپلیں پھوٹیں گی۔ جن سے ترقی، خوشی، اطمینان، ارتقاء اور سب سے بڑھ کر نئی ابتدا ملے گی جو نئی بلندیوں، نئی ترجیحات اور نئی وسعتوں کو جلا بخشے گی۔

Check Also

Gumshuda

By Nusrat Sarfaraz