Vitamin D Ki Kami
وٹامن ڈی کی کمی

چھٹی کلاس میں آکے ہی چھٹی کا دودھ یاد آیا، اس سے قبل تو من چلے کا سودا تھا۔ صبح مسجد کی حاضری سے "ولّاں والے پراٹھے" تک کا وقت، سکول آنے جانے کے اوقات میں ریلوے پھاٹک کا نظارہ، نہر کی "چبیّوں" سے "لوڈھے ویلے" کا دودھ سوڈا، شام کے دھندلکے سے رات کو "کوسے دودھ کے پیالہ" تک ہر چیز چھٹی میں آ کے ناصرف چھوٹ گئی بلکہ ایسی کئی چھوٹی چھوٹی خوشیاں ناپید ہونا شروع ہوگئیں۔ انگریزی اور سائنس کے یب (گرداب) میں ایسے پھنسے کہ نہ نکلتے بنے اور نہ ڈوبتے ہی جان بچے۔ ابنِ انشاء نے خوب کہا کہ ڈوبتا وہی ہے جسے تیرنا آتا ہے، جسے تیرنا نہیں آتا وہ تو پانی کے قریب بھی نہیں جاتا۔
وہیں سائنس کی کلاس میں مختلف وٹامن اور ان کی کمی سے ہونے والی بیماریوں کے متعلق پڑھایا گیا۔ یہ وہی دور تھا جس میں مشکل چیزوں کو یاد رکھنے کے لئے اپنے خود کے ذاتی اختصارات (شارٹ کٹس) بنانے شروع کئے۔ یہ وٹامن والے اختصارات تو آج بھی پانی کی طرح ازبر ہیں۔ مثلاً
وٹامن اے کی کمی سے: آنکھوں کی بیماری۔
وٹامن بی کی کمی سے: بیری بیری کی بیماری۔
وٹامن سی کی کمی سے: سکروی کی بیماری اور یہ سٹرس میں پایا جاتا ہے۔
وٹامن ڈی کی کمی سے: ہڈیوں کی بیماری۔
وٹامن ڈی کا سب سے اچھا اور قدرتی ماخذ سورج کی روشنی ہے۔ یعنی سورج کی روشنی میں نکلئے، اپنے روزمرہ کے کام کاج نپٹاتے ہوئے قدرتی طور پہ وٹامن ڈی بھی ساتھ ساتھ لیتے رہیں اور ہڈیوں کی بیماریوں سے بچے رہیں۔ شدید موسم والے علاقوں میں صورتحال کچھ مختلف ہے۔ سات سمندر پار مقیم ایک دوست فرماتے تھے کہ ان کے ہاں وٹامن ڈی کی گولیاں کھانے کا رواج ہے اور یہ باقاعدہ لوگوں کو بتایا جاتا ہے کہ استعمال کریں تا کہ ان میں وٹامن ڈی کی کمی نہ ہو اور ہڈیاں اپنی طبعی عمر تک درست رہیں تو ان کی یہ بات جب پہلی بار سنی تو بے اختیار ہنسی نکل گئی، انہوں نے بے موقع خندہ زنی کا مقصد پوچھا تو وجہ بتاتے ہی بنی۔ عزیز میاں قوال کی مشہور قوالی "میں شرابی شرابی" کا ایک شعر کچھ یوں تھا کہ:
اگر کھائے واعظ نے انگور، تو میں محشر میں کہہ دوں گا
اے اللہ یہ شراب کی گولیاں کھاتے تھے، ہم ساغر سے پیتے تھے
تو یہی بات ہنسی کا باعث بنی کہ واعظ کس قسم کی گولیاں کا شغف رکھتے تھے اور موصوف کھلے ڈھلے معاشرے میں بھی صرف وٹامن ڈی کی گولیوں پہ ہی اکتفا کئے ہوئے ہیں۔ ایسی توجیہہ سے دوسری جانب سے پڑنے والے قہقہے سے ثابت ہوگیا کہ بے موقع خندہ زنی کچھ ایسی گراں نہیں گزری۔
قدرتی دھوپ جہاں انسانی جسم میں وٹامن ڈی کے لئے ضروری ہے ایسے ہی زمانے کی دھوپ بھی انسان کے لئے اہمیت رکھتی ہے۔ اگر یہ دھوپ اہم نہ ہوتی تو کبھی بھی یہ محاورہ وجود نہ پاتا کہ "ہم نے بال دھوپ میں سفید نہیں کئے" یعنی یہ تجربہ زمانے کی دھوپ سینکنے اور اس دھوپ کی گرمی اور حدت برداشت کرنے ہی سے آیا ہے۔ زمانے کی دھوپ سے ہم آہنگی بھی اشد ضروری ہے۔ جیسے قدرتی دھوپ اور اس کی حدت ہماری فصلوں کے لئے ضروری ہے۔ سورج کی روشنی اور گرمی سے گندم پکتی ہے، آم میں رس پڑتا ہے، سورج مکھی کا مکھ حرکت کرتا ہے اور یہ فصلیں، اناج اور پھل انسان کے لئے فائدہ مند ثابت ہوتے ہیں۔
بالکل اسی طرح زمانے کی دھوپ ہمیں وقت کے اتار چڑھاوَ، سماجی روّیوں، حالات کی ناسازی، معاشی ناہمواری، انسانی خصلتوں سے روشناس کراتی ہے۔ اگر یوں کہیں کہ زمانے کی دھوپ دراصل وقت کے آشوب اور حالات کی تپش کا استعارہ ہے تو غلط نہ ہوگا۔ یہ دھوپ کبھی تیز کرنوں کی مانند روح کو جھلسا دیتی ہے، کبھی ابر کی اوٹ سے چھن کر نرم روشنی بن کر دل کو تسلی دیتی ہے۔ سماجی رویّے، وقت کے تغیّر اور حالات کی ناسازی اسی دھوپ کے روپ ہیں، جو انسان کو پرکھتے ہیں، اس کے صبر و استقامت کو جانچتے ہیں۔ جو اس دھوپ کے سائے میں جی لیتا ہے، وہ گویا خود کو کندن بنا لیتا ہے اور جو اس کے جُھلسے بغیر رہنا چاہے، وہ زندگی کے اصل ذائقے سے محروم رہ جاتا ہے۔
زمانے کی دھوپ سے بچنے کا کوئی سایہ مستقل نہیں، کوئی آسرا پائیدار نہیں، کوئی امید کامل نہیں، کوئی رازداں مخلص نہیں۔ اس سارے عمل میں انسان کا اصل آسرا، اس کی امید، اس کا مخلص رازداں، حتیٰ کہ اس کا محرک اس کا اپنا خالق ہی ہے اور اسی کی بخشی ہوئی ہمت، بصیرت اور یقین ہی سے انسان کو اپنے لئے سایہ تراشنا پڑتا ہے۔ دھوپ کی آنچ جتنی سخت ہوگی، اسی قدر وہ انسان کو صیقل کرے گی، اس کے شعور کو روشن اور اس کے حوصلے کو بلند کرے گی اور انسان کا اپنے پروردگار سے مضبوط تعلق ہی اسے درکار وٹامنز مہیا کرے گا اور کبھی بھی اسے وٹامن کی کمی کا سامنا نہ ہوگا۔

