Pech o Kham Ke Beech
پیچ و خم کے بیچ

صحرا نووردی سے اچانک سفر بہ کوہ شروع ہو جائے تو کچھ مشکلات بنتی ہیں اور اگر ان مشکلات کا ادراک بھی نہ ہو تو پھر واقعی ہر طرف مشکلات سر اٹھائے کھڑی نظر آتی ہیں کہ جیسے یہ ہمارے ہی استقبال کو یہاں کھڑی تھیں۔ صحرا نووردی میں ایک تھوڑی سی سہولت یہ ہے کہ صحرا میں ایک سی حدت رکھے چٹیل میدان میں ایک سی شدت کے ساتھ کچھ مدت تک چلنا پڑتا ہے اور پھر قدرت ترس کھاتے ہوئے کہیں نہ کہیں دم لینے کو جگہ دے دیتی ہے۔ سراب کے وہم میں بھٹکتا بندہ جب سیراب ہو جاتا ہے تو منزل کی جستجو اسے پھر سے کمر کسنے اور راستہ ناپنے پہ مجبور کر دیتی ہے۔ یہ جستجو ہی اس سارے سفر میں اصل محرک ہے ورنہ منزل کے راہی کی نیت کا کیا اعتبار۔
ایسے ہی ایک دن جب معمول کا سفر صحرا نووردی سے اچانک سفرِ بہ کوہ میں بدلا تو معلوم ہوا کہ یہ "بدلا" نہیں یہ تو "بدلہ" ہے۔ سفر کی ہیئت بدلی تو لوازمات کا بدلے جانا بھی ضروری تھا۔ لیکن جب تک یہ احساس ہوا تب تک گیارھواں گھنٹہ (ایلیونتھ آوور) شروع ہو چکا تھا۔ سیدھی سیدھی سڑک اب آہستہ آہستہ بلندی کی طرف گامزن تھی۔ غروب ہوتے ہوئے سورج میں گردو پیش کے پہاڑ بھی کسی غیر مرئی مخلوق سے کم نہ لگ رہے تھے۔ کسی ایک نقطے پہ توجہ مرکوز کرنے پہ نیم کھلی آنکھوں سے دیکھنے پہ ہر پہاڑ کسی نہ کسی دیو ہیکل جانور کی یا کسی انسانی شبیہہ سے مماثلت کھاتا ہیولا دکھائی دے رہا تھا۔ سرِشام راستے میں ایسا ہی ایک منظر اس قدر دلفریب لگا کہ پہاڑوں میں مقید پتھر بنی حسینہ کو عکس بند کرتے ہی بنی۔
اپنے تئیں اس مورتی میں سب کچھ ڈھونڈ لیا۔ سارے نین نقش بہت ہی پُر کشش لگے۔ ڈھلتے سورج کی ماند پڑتی روشنی میں البتہ کہیں بھی زُلف اور زُلف سے وابستہ پیچ و خم نہ مل سکے۔ بہت افسوس ہوا کہ عکس بندی نامکمل سی لگے گی۔ زُلفیں مل جاتی تو "مونا لیزا" کی تصویر بھی بھلا اس کے آگے کیا بیچتی۔ ابھی اس زُلف کے پیچ و خم کا دکھ ہی کم نہ ہوا تھا کہ سڑک کے پیچ و خم نے سب غم غلط کر دیا۔ بڑھتے اندھیرے، پُر پیچ سڑک اور خطرناک سی چڑھائی سے گاڑی کی رفتار کم ہونا شروع ہوئی تو توجہ زُلف کے خم سے سڑک کے خم پہ مرکوز کرنا پڑی۔ خطرے کی اصل گھنٹی نے ہمارا بینڈ تو تب بجایا جب ہینڈ بریک لگا کے گاڑی اسی ڈھلوان پہ روکنی چاہی کہ پہلے گئیر سے کام شروع کرتے ہیں۔ ہینڈ بریک کھینچ کے پاوَں کی بریک سے پاوَں اٹھایا تو پیروں تلے سے بریک پیڈل کیا نکلا، ہماری تو زمین ہی نکل گئی کہ گاڑی کی ہینڈ بریک تو کام ہی نہیں کر رہی۔
چار و ناچار کسی نہ کسی طرح گاڑی ڈھلوان سے نیچے اتارنے میں کامیابی مل ہی گئی۔ اب نئی تلاش تھی کہ کسی چٹیل راستے کو ڈھونڈا جائے جو منزل تک لے جائے۔ ہمیشہ کی طرح قدرت کی مہربانی ہی کام آئی اور ایک درویش مل گیا جس نے نا صرف متبادل راستے کی بابت بتایا بلکہ اس راستے کی مضمرات اور سارے اہم اہم سنگِ میل بھی سمجھائے کہ رات کے اندھیرے میں کہیں راستہ پھر سے کھوٹا نہ ہو جائے۔ متبادل راستے تک جانا بھی اپنے آپ میں ایک کام تھا، وہ درویش اپنی گاڑی کی راہنمائی میں وہاں تک چھوڑ کے آیا تا کہ کچھ آسانی پیدا کر سکے اور یوں منزل کا سفر خوفناک حد تک ڈرانے اور تھکانے پہ اختتام پذیر ہوا۔
اگلے دن گاڑی کو ورکشاپ لے جا کے معائنہ کروانا ضروری سمجھا کہ کہیں کسی اور راستے میں مسئلہ نہ بنے۔ ورکشاپ کے مکینک نے بتایا کہ بہت زیادہ مسئلہ نہیں ہے بس چند ایک پیچ اور نٹ بولٹ سے کام ہو جائے گا۔ گزشتہ روز سرِ شام زُلف کے پیچ و خم اور سڑک کے پیچ و خم سے بات اب ہینڈ بریک کے پیچ تک پہنچ گئی تھی۔ یہی مرمتی کام اگر سفر سے پہلے انجام دے لئے جاتے تو راستے کی کوفت سے یقینی طور پہ بچا جا سکتا تھا۔ لیکن اگر سارے ہی پیچ لگے ہوتے اور گاڑی اپنی منزل پہ رواں دواں پہنچ جاتی تو اس فرشتہ صفت درویش سے ملاقات کیسے ہوتی؟
یہ سب تمہید اس لئے باندھی کہ سوشل میڈیا پہ ائیر انڈیا کے جہاز اےآئی -171 کے حادثے کی پہلی رپورٹ جاری کی گئی ہے اور کسی زیاں کار نے انتہائی دور کی کوڑی لاتے ہوئے لکھا کہ کپتان (پائلٹ) کی سیٹ کا لاکنگ فنکشن درست کام نہیں کر رہا تھا اور اس کی لاکنگ پن (پارٹ نمبر BACB30LN5S02) ٹوٹی ہوئی تھی جو کہ اس المناک حادثے کی بنیادی وجوہات میں سے ایک ہے۔ اگرچہ سوشل میڈیا پہ جاری کردہ یہ رپورٹ مستند نہیں لیکن اس کے باوجود بھی اس کو اس لئے زیبِ قرطاس کیا کہ مشینری کے معاملات کی طرف توجہ دلائی جا سکے جو کہ بہر کیف انتہائی سنجیدہ اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔
مشینری کی اصلاح و مرمت سے متعلقہ تمام امور کو ہمیشہ ہی ترجیح دی جانی چاہئیے اور بہترین حکمتِ عملی یہی ہے کہ دستکار (مینوفیکچرر)کے بتائے گئے اصول و ضابطے کی پاسداری ہر صورت یقینی بنائی جائے۔ خاص طور پہ پیشگی نگہداشت (پریوینٹیو مینٹینینس) کو کسی طور بھی پس پشت نہیں ڈالنا چاہئیے۔ ورنہ اس طرح کے مسنگ پیچ کسی نہ کسی پیچ دار صورتحال سے سامنا کروا دیتے ہیں اور کبھی کبھار نیکی اور مددگار فرشتےسے فرشتہ اجل پہلے پہنچ جاتا ہے۔

