Naqab e Mahtab
نقابِ ماہتاب

سردیوں کی آمد سے قبل ایک موسم نیم سردی کا بھی آتا ہے۔ جس میں پتا نہیں چلتا کہ پنکھا کب بند کرنا ہے اور گرم کپڑوں کو دھوپ کب لگوانی ہے۔ یار لوگ اس موسم میں ایک پاوَں کمبل سے باہر نکال کے جسمانی درجہ حرارت متوازن (بیلینس) کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے ہی ایک دورنگے موسم میں دوست احباب کے ساتھ چھت پہ بیٹھے تحت اللفظ پڑھں ے اور سننے کی محفل جاری تھی۔ موسم اور چودھویں رات کی مناسبت سے ابنِ انشاء کی مشہور غزل "کل چودھویں کی رات تھی" کی فرمائش پڑی۔ یار لوگوں نے اس کی محض مسخرائی تقلید (پیروڈی) یا ابتدائی دو اشعار ہی سن رکھے تھے۔ لیکن ان اشعار پہ داد سوا تھی:
ہم پر یہ سختی کی نظر ہم ہیں فقیر رہ گزر
رستہ کبھی روکا ترا دامن کبھی تھاما ترا
ہاں ہاں تری صورت حسیں لیکن تو ایسا بھی نہیں
اک شخص کے اشعار سے شہرہ ہوا کیا کیا ترا
بے درد سننی ہو تو چل کہتا ہے کیا اچھی غزل
عاشق ترا، رسوا ترا، شاعر ترا، انشاؔ ترا
گرہن کے شورو غوغے میں یہ بھولی بسری یاد امڈ آئی کہ کیسے آج رات اس گرہن کا نظارہ کیا جائے گا اور اس کو دیکھنے والے اپنی اپنی فہم کے مطابق اس کو سمجھیں گے۔ الہامی تعلق والے "صلاۃ الخسوف" پڑھیں گے، علمِ نجوم کی پرکھ والے برجوں پہ اس کے اثرات سمجھائیں گے اور سائنس پڑھنے کی تہمت اپنے ذمے لینے والے نظریہ الکم (کوانٹم تھیوری) سے اس کی توجیح پہ روشنی ڈالیں گے اور دُنیا کے ٹھکرائے ہوئے فرقہ عشقیہ والے اسے اپنے رنگ اور ایک الگ ڈھنگ سے دیکھیں گے۔ وہ اپنے قیافے سیدھے کریں گے کہ بدلی کی اوٹ میں چھپا چاند زیادہ دلکش لگتا ہے یا زمین کا اپنا حق جتانا زیادہ دلگیر لگتا ہے۔
یہ سارا نظامِ شمسی کسی دور میں ایک اکائی ہی تھا اور اسے ہونا بھی چاہئیے کہ ایک اکائی ہی ہر چیز کا آغاز ہوا کرتی ہے۔ اِس کُل کائنات کا خالق اور مالکِ حقیقی بھی اپنے آپ میں واحد و لا شریک اور یکتا ہے۔ اس کی یکتائی ایسی ہے کہ جو انسانی خرد کی وسعتوں میں نہیں سما سکتی۔ پھر اس خدائے لم یزل نے کائنات کو ایک سے آگے بڑھایا اور نظریہ الکم کے مطابق یہ نظامِ شمسی وجود پا گیا۔ جس میں سبھی سیارے ایک سورج کے گرد گھومتے ہیں۔ پھر اکیلے اکیلے سیاروں کے چاند تخلیق پا گئے۔ جیسے ہمارے نظامِ شمسی کا ایک ہی سورج ہے ایسے ہی ہماری زمین کا چاند بھی ایک ہی ہے۔ اس "ایک کی" اور "ایک میں" بھی کئی رموز ہیں۔ ایک ہونا، ایک کا رہنا، ایک سے رہنا، ایک کو چاہنا، ایک کو پانا، ایک کی بات، ایک کا ساتھ، ایک کا نام، ایک کا پیغام، ایک کی خوشبو، ایک کی طلب، ایک کے خواب، ایک کی تعبیر، ایک کی تقدیر۔۔ نظامِ شمسی کی طرح سب اور سب کی بات بس ایک ہی کے گرد گھومتی ہے۔
زمین اور چاند اس "ایک" کے حکم پہ ایک سورج کے گرد اپنے اپنے مدار (آربٹ) میں تیر رہے ہیں اور اسی ایک کے حکم کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ چاند بھی اسی "ایک" کے حکم کا پابند ہے۔ زمین کے گرد دیوانہ وار گھومتا ہے۔ جیسے سفید لباس میں ملبوس بندگانِ خُدا خانہ خُدا کے گرد گھومتے ہیں۔ اسی وجدان، مستی اور جذب کے عالم میں جب زمین سورج اور چاند کے بیچ آتی ہے تو اس دوران ہی چاند کو اپنی اصل اور اپنی ابتدا کا ادراک ہوتا ہے۔ وہ جو سورج کی مستعار روشنی سے چمک رہا تھا وہ تو کبھی اسی زمین کا حصہ تھا اور بیرونی روشنی کے بعد بالکل زمین جیسا ہی لگ رہا ہے۔ گو کہ اب وہاں روشنی کی بجائے اندھیرا ہے لیکن یہ محض وقتی اندھیرا ہے۔
یہ اندھیرے کبھی کبھی ہمیں اپنی اصل یاد دلانے کے لئے لوٹ آتے ہیں کہ ہماری عقل و فہم سے یہ بات چوک نہ جائے کہ ہم بھی اسی "ایک" سے وابستہ ہیں اور وہ "ایک" ہی ہے جو سب کو ناصرف راہ پہ چلائی رکھتا ہے بلکہ ان کے لئے روشنی کا اہتمام بھی کرتا ہے۔ لیکن جب کبھی پٹڑی بدلنے لگے، دوری بڑھنے لگے، حکم عدولی کا خدشہ ہو تو تنبیہ کی غرض سے ایسے معروضی حالات پیدا کر دیتا ہے کہ ہم پھر سے اسی "ایک" کی طرف رجوع کریں اور اپنا تعلق اسی سے قائم کریں اور اسے مضبوط بنائی رکھیں۔
وقت کا پہیہ اپنی رفتار سے چلتا ہے، حالات بدلتے ہیں اور جب حالات بدلتے ہیں تو حالت بھی بدل جاتی ہے۔ سبھی کا سفر اپنے اپنے مدار میں جاری رہتا ہے۔ بس جب تک اس "ایک" کے حکم سے روشنی دوبارہ بحال نہیں کر دی جاتی تب تک ہمیں اپنے آپ کو اس کی یاد میں مستغرق رکھنا ہے۔ اس سے تعلق بہتر اور مضبوط بنانا ہے اور جب بات کی تاب مطلوبہ نہج پہ پہنچ جاتی ہے تو پھر اسے اپنی مخلوق کی عاجزی، بے کسی اور ندامت پہ ترس آ ہی جاتا ہے تو اس "ایک" کے ایک ہی لفظ کن سے معمولات واپس بحال ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔
ماہتاب کے رُخِ روشن پہ جو نقاب آن پڑا تھا وہ اب ہٹنے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ زمین چلتے چلتے جب چاند کے آگے سے سرکنا شروع کرتی ہے تو سورج کی طرف سے آنے والی پہلی کرن ان اداس اور دھندلے پلوں پر چھائی خاموشی میں ایک روشنی بھر دیتی ہے۔ یہ بڑھتی روشنی ہمیں پھر سے آگے بڑھنے کی ہمت دیتی ہے۔ ہماری یاد کو مستحکم کرنے میں مدد دیتی ہے کہ ہم اسی "ایک" سے وابستہ رہیں اور ہمارا سب کچھ اسی "ایک" سے منسلک رہے۔

