Mujassam Dua
مجسم دعا

قاسم علی شاہ صاحب۔۔ حضورِ والا قاسم علی شاہ صاحب کو بھلا کون نہیں جانتا۔ جو کتب بینی اور اداروں کی پہنچ اور دسترس سے باہر تھے ان کے لئے سوشل میڈیا نے سہولت بہم پہنچا دی۔ قاسم علی شاہ صاحب سے پہلا تعارف کراچی میں ہوا۔ رمضان کے دن تھے۔ گرمی اور پھر روزے کی حالت میں گرمی سے حالت دگرگوں تھی۔ خیالات کی یکسانیت کو جھٹکنے کے لئے سخنران انگیزشی (موٹیوویشنل سپیکرز) کی ویڈیوز دیکھنا شروع کی۔ تو وہیں کہیں ایک آواز اور اس کے لہجے نے انگلیوں کی حرکت کو روکا کہ کوئی صاحب اپنے پنجابی لہجے میں اردو اور انگریزی بول رہے تھے۔ ان کا بولنے کا سادہ سا انداز اچھا لگا۔
ذوالفقار صاحب کے بعد یہ پہلی شخصیت تھی کہ جو خود تو شریر تھی ہی لیکن بولنے کے ساتھ ساتھ اپنے شریری بھاشا (باڈی لینگوئج) اور لب و لہجے کے اتار چڑھاوَ سے نا صرف بخوبی واقف تھی بلکہ اس کے استعمال پہ بھی کما حقہ مہارت رکھتی تھی۔ سامعین کو بس میں کرنا ہو یا اکتاہٹ کا شکار ہوتی محفل کو کشتِ زعفران بنانا، دلچسپی برقرار رکھنے کو ان سنی کہانیاں سنانا ہو یا عقل کو جلا بخشنے والے اچھوتے سوالات۔۔ دونوں ہی میں یہ خصوصیات مشترکہ تھیں۔ محفل میں بھلے کیسے ہی نابغہَ روزگار احباب بیٹھے ہوں لیکن یونہی لگتا ہے کہ محفل کے اصل روحِ رواں تو یہی ہیں۔ ان کی باتیں سننے اور سر دھننے کو دل چاہتا ہے اور تشنگی ایسے بجھتی ہے کہ اپنی بات بیان کئے بنا ہی تسلی و تشفی ہو جاتی ہے۔
ایسا ہی ایک بصری فیتہ (ویڈیو کلپ) نظر سے گزرا جس میں شاہ صاحب فرما رہے تھے کہ دعا کروائی نہیں جاتی بلکہ دعا لی جاتی ہے۔ یعنی کسی کو کہنا کہ میرے لئے دعا کریں اس سے کہیں بہتر ہے کہ آپ اس شخصیت کے لئے کچھ ایسا کر دیں کہ وہ خود آپ کو دعا دیں۔ والدین، گھر کے بڑوں، اساتذہ اکرام اور دیگر بزرگوں کی خدمت ایسے انداز میں کی جائے کہ ان کے دل سے آپ کے لئے دعا نکلے تو یقیناً اس دعا کے اثرات ان سے زبردستی کروائی گئی دعا سے کہیں زیادہ ہوں گے۔
اب تو پہ در پہ جواں عمری کے جنازوں کی خبروں نے تشویش میں مبتلا کر دیا کہ اگر دیسِ عدم سدھارنے کی یہی رفتار رہی تو بزرگوں کا ملنا نایاب ہو جائے گا۔ پھر بقول اقبال جوانوں کو ہی پیری کی سند بھی دینی پڑے گی کہ دعاوَں کا سلسلہ چلتا رہے۔ بہرکیف دعا کے لئے دعا کرنے والے کاعمر رسیدہ ہونا شرط نہیں ہے۔ ہاں البتہ خلوصِ نیت اور یقینِ کامل کا ہونا بہت ضروری ہے اور دعا زباں سے نکلے الفاظ کی بھی محتاج نہیں ہے۔ بیمار بچے کے لئے والدین کی تڑپ ہی اس کے لئے خاموش دعا ہے۔
ایک استاد جب طلبہ کی تربیت میں اپنی محنت لگا دیتا ہے، وہ اس کی مجسم دعا ہے۔ ایک ڈاکٹر جب مریض کے لیے اپنی نیند، آرام اور راحت قربان کرتا ہے، تو اس کا عمل دعا کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ ایک مزدور جب گرمی میں پسینہ بہا کر حلال رزق کماتا ہے، وہ اس کی محنت ہی دعا بن جاتی ہے۔ جب ہم اپنی نیت خالص رکھ کر، اللہ کی رضا کے لیے، اخلاص سے کوئی بھی کام کرتے ہیں، تو ہماری ہر کوشش، ہر قدم، ہر محنت دراصل مجسم دعا بن جاتی ہے۔
سرپٹ بھاگتی دنیا داری کے اس کھیل میں ایک ایسی ہستی ضرور ڈھونڈ لینی چاہئیے جو آپ کے لئے مجسم دُعا ہو۔ جو بغیر کسی طمع و لالچ کے، بغیر کسی مطلب و منشاء کے، بغیر کسی ذاتی مفاد اور غرض کے آپ کی بھلائی چاہے اور آپ کے لئے دعا گو رہے۔ یہ ہستی ہر کسی کے لئے مختلف ہو سکتی ہے۔ یہ ہستی آپ کی ماں، آپ کے والد، آپ کے بہن بھائیوں میں سے کوئی ایک، آپ کا کوئی عزیز، کوئی دوست، کوئی خیر خواہ، کوئی بزرگ یا آپ کا جیون ساتھی بھی ہو سکتا ہے۔ بے لوث محبت اور پرخلوص جذبات سے مزین ہستی ہی مجسم دعا بن سکتی ہے۔ جو ہر وقت آپ کی خیر سلامتی، کامیابی، بھلائی اور ترقی کی متمنی رہے۔
جن کو ایسی مجسم دعا ہستی میسر ہے ان کو اس دستیابی پہ بھی اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئیے کہ زندگی کے اتارچڑھاوَ میں کامیابی سے نکلنے کے لئے ان کے پاس دعاوَں کی شکل میں توشہ اور کمک پہنچتی رہتی ہے اور جو ابھی تک اس سہولت سے محروم ہیں انہیں فی الفور اس طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے کہ نہ تو پیسے سے ہر چیز خریدی جا سکتی ہے اور نہ ہی پیسہ ہر چیز کا نعم البدل بن سکتا ہے۔ دانائے راز فرماتے ہیں کہ دعا کا رنگ نہیں ہوتا لیکن یہ رنگ لگا دیتی ہے۔
دعا کا رنگ نہیں ہوتا
مگر دل کے افق پر
یہ کچھ ایسے رنگ بھرتی ہے
کہ ماند پڑتے خوابوں میں
نئی امید جاگ اٹھتی ہے
یہ وہ خوشبو ہے جو چھو کر بھی
نظر آتی نہیں لیکن
ہر احساس کو مہکا دے
ہر لمحے کو سنوار دے
دعا کا رنگ نہیں ہوتا
مگر یہ رنگ لگا دیتی ہے
جہاں بے رنگ سا لگتا ہو
وہیں پر چاند سا چمکا دیتی ہے

