Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Tauseef Rehmat
  4. Lar Kar Hara (1)

Lar Kar Hara (1)

لڑ کر ہارا (لکڑہارا) (1)

بھلے وقتوں کی بات ہے علم کی جستجو اور گیان کی تلاش طالبِ علم کو سرگرداں رکھتی تھی۔ بے سروسامانی کی حالت میں بھی میلوں سفر کیا جاتا تھا۔ ملکوں ملکوں خاک چھانی جاتی تھی کہ کسی طور علم کی تشنگی مٹائی جا سکے۔ ایسا ہی ایک طالب تھا جو "اسمِ اعظم" کی تلاش میں تھا۔ تلاش میں بھی کیا تھا یوں سمجھ لیں کہ مارا مارا پھر رہا تھا۔ جہاں بھی اُسے کچھ ملنے کی امید ہوتی وہ ادھر ہی کا سفر شروع کر دیتا۔ اپنے حصے کا گیان لیتا اور تسلی نہ ہونے کی صورت میں نئی راہوں کی تلاش میں نکل پڑتا۔ یوں کئی عرصے سے وہ اپنی اسی جستجو کے ہاتھوں مجبور قریہ قریہ بھٹک رہا تھا۔

طویل مدت کے بعد اسے بالآخر ایک ایسا اللہ کا بندہ مل گیا کہ جس کے پاس "اسمِ اعظم" تھا۔ وہ بندہ بارگاہ میں باادب حاضر ہوا اور باقاعدہ زانوئے تلمذ تہ کیا۔ حسبِ عادت بندے نے اپنے استاذ کے سامنے اپنے من کی بات رکھی کہ یہاں تک کا سفر محض "اسمِ اعظم" کی جستجو میں کیا ہے۔ استاد بھی معاملہ فہم اور بندہ شناس تھے۔ انہوں نے شاگرد کو خانقاہ سے متصل علاقے کی سیر کو بھیجا اور کہا کہ وہاں جو کچھ بھی واقعات پیش آئیں وہ واپس آ کے ضرور سنائے۔ شاگرد امر کے مطابق روانہ ہوگیا کہ دیکھتے ہیں اس سیر میں کیا کچھ نیا دیکھنے کو ملتا ہے اور اس دکھائی گئی کہانی کے پیچھے اصل سبق کیا پوشیدہ ہے۔

تھوڑی مسافت طے کی تو جنگل سے واسطہ پڑ گیا۔ چونکہ حکم بجاآوری ہی دراصل اطاعت ہے تو جنگل کیا اور دشت کیا، اللہ کا نام لیا اور سیر (مشاہدے) کو چل دئیے۔ تھوڑا مزید اندر گئے تو دیکھا کہ فوج کے ہرکارے ایک بوڑھے اور بڑھیا کو زدوکوب کر رہے ہیں۔ یوں ضعیف العمر بندوں کو ساتھ ایسا برتاوَ زیادتی کی بات تھی۔ شاگرد ان تک پہنچا کہ ان کو سرکاری کارندوں کے ظلم سے نجات دے تو سپاہیوں نے اسے بھی ڈرا دھمکا کے واپس جانے کو کہا کہ وہ خود کو اس معاملے سے دور رکھے ورنہ گیہوں کے ساتھ گھن پستے زیادہ وقت نہیں لگتا۔ شاگرد نے بھی کان لپیٹنے ہی میں عافیت جانی اور واپسی کی راہ لی کہ اب مزید سیر کاحوصلہ اور جوش و خروش باقی نہ تھا۔ لیکن وہ اپنی بےبسی اور لاچاری پہ مغموم ضرور تھا کہ وہ ان بوڑھوں کی کچھ مدد نہ کر سکا۔

درگاہ پہ حاضری ہوئی تو استادِ محترم نے سیر کی بابت پوچھا کہ وہاں کیا کیا دیکھا، کوئی واقعہ رونما ہوا ہو تو بتائے، کوئی نئی یا انوکھی واردات گزری ہو تو ذکر کرے، کوئی غیر معمولی بات یا کوئی حادثہ اگر وقوع پذیر ہوا ہو تو گوش گزار کرے تاکہ معلوم ہو سکے کہ شاگرد کے مشاہدے میں کیا بات آئی؟ شاگرد نے بے دلی اور تشویش کے عالم میں بوڑھے لکڑ ہارے کا سارا واقعہ سنایا اور اپنے کرب اور غصے کی بابت بتایا کہ اس زیادتی پہ خاموش رہنا محال تھا۔ اگر اس کے پاس اختیارات ہوتے یا طاقت ہوتی تو وہ یقیناً ان سپاہیوں کو اس زیادتی کی سزا دیتا جو انہوں نے عمر رسیدہ جوڑے کی ساتھ کی۔ وہ تو محض جنگل میں لکڑیاں کاٹ رہے تھے کہ ان کو بیچ کر اپنے لئے کچھ روزی کما سکیں اور سانسوں کی گاڑی کھینچ سکیں۔

استادِ محترم نے خندہ پیشانی سے سب بات سنی اور شاگرد کے سامنے ایک سوال رکھا کہ اگر تمہیں "اسمِ اعظم" معلوم ہوتا تو اُس وقت تم کیا کرتے۔ شاگرد اس سمّے اس ہونے والی زیادتی پہ طیش میں تھا تو فوراً کہنے لگا کہ اگر میں "اسمِ اعظم" جانتا تو اسی وقت اس اسم کی طاقت سے ان سپاہیوں کو خاکستر کر دیتا کیونکہ وہ اسی سزا کے مستحق تھے کہ انہوں نے ان بوڑھوں کا کوئی خیال نہ کیا۔ تو معزز استاد نے نہایت محبت سے شاگرد کو سمجھایا کہ یہ "اسمِ اعظم" کسی کو شکتی مان (سُپر مین) بنانے کے لئے نہیں بتایا یا سیکھا جاتا۔ اگر اس کا مقصد ان سپاہیوں کو سزا دینے جیسا عمل ہی ہوتا تو سنو فرزند میں نے یہ "اسمِ اعظم" اسی بوڑھے لکڑہارے سے سیکھا تھا جو خود ان سپاہیوں سے مار کھا رہا تھا۔

روحانیت اور اس کے نتیجے میں ہونے والا فضل و کرم محض رب کی عطا ہے۔ یہ کوئی دکھاوے کی یا شہرت کی چیز نہیں۔ اگر قدرت الفاظ کی تاثیر بدل دے تو اسے خلقت کی منفعت اور فائدے کے لئے استعمال کرنا چاہئیے نا کہ اس صلاحیت کو داروغہ بنے خود ہی سب کی ایمان سلامتی کے از خود فیصلے کرنے سے ضائع کرنا چاہئیے۔ لکڑہارے کی طرح محنت اور مشقت سے اپنی حلال روزی کمانے کی فکر ہو، بھیتر چاہے کیسی ہی شکتیاں (باطنی طاقتیں) پرویش (رونما) پا چکی ہوں۔

لکڑہارے کی مثال میں بھی یہی سبق ہے کہ وہ صبح سویرے رب کے فضل کی تلاش میں نکلتا ہے اور اپنے حصے کی روزی ڈھونڈتا ہے۔ اسی جستجو میں وہ پُر خطر جنگلوں کے بیچ مشقت سے ٹوٹی ہو لکڑیاں اکٹھی کرتا ہے، مشکل سے انہیں باندھتا ہے، اپنی کمر پہ لادھنے کی تکلیف برداشت کرتا ہے، راستے اور موسم کی صعوبتیں سہتا ہے اور پھر کسی بازار میں جا کے انہیں فروخت کرتا ہے۔ اس سارے سودے میں اسے نفع یا نقصان کی لالچ نہیں وہ تو بدلے میں بس اتنے ہی درہم و دینار (پیسوں) کی خواہش و حسرت رکھتا ہے کہ جس سے اس کے گھر کا چولہا جل جائے اور وہ اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پال سکے۔

لکڑہارے کہ یہ داستاں اپنے اندر دو اور خوبیاں بھی رکھتی ہے جو کامیابی کی ضامن سمجھی جاتی ہیں۔۔

جاری۔۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali