Lar Kar Hara (2)
لڑ کر ہارا (لکڑہارا) (2)

لکڑہارے کی یہ داستاں اپنے اندر دو اور خوبیاں بھی رکھتی ہے جو کامیابی کی ضامن سمجھی جاتی ہیں۔ حصولِ کامیابی کے لئے درکار عناصر اور جزیات پہ نہایت تفصیل سے بہت قابل مہاپرشوں اور دانشوروں نے لکھ لکھ کے قلم توڑ رکھے ہیں۔ ان اجزاء ترکیبی سے ہٹ کے فقط وہ دو باتیں بیان کرنا مقصود ہیں جو باقی تمام کا اگر سارا بھی نہیں تو بیشتر حصے کا احاطہ کر لیتی ہیں۔ لکڑہارے کے کام کو اگر بطور تمثیل لیا جائے تو اپنے اپنے متعلقہ کام کو اسی کسوٹی پہ پرکھا جا سکتا ہے۔ جن دو خوبیوں کی بابت اس مضمون میں ذکر ہوگا ان کی افادیت اور اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے بچپن میں پڑھے ہوئے دو واقعات دہرا لیتے ہیں تا کہ بات کی تاب بڑھ سکے۔
پہلا واقعہ تو نبی کریم ﷺ کی ذاتِ بابرکات سے منصوب ہے کہ ایک روز دربارِ رسالت ﷺ میں ایک بھکاری حاضر ہوا اور اس نے اپنی گزر بسر کے لئے دستِ سوال دراز کیا کہ کچھ مالی مدد کی جائے۔ آپ ﷺ نے اس سے گھر میں موجود سامان کے متعلق پوچھا کہ کیا اس کے پاس کچھ چیزیں ہیں کہ جن کو بیچا جا سکے، جس پہ اس نے مختلف اشیاء کا ذکر کیا اور آپ ﷺ نے اسے کہا کہ وہ چیزیں لے آوَ۔ آپ ﷺ نے وہ اشیاء فروخت کرکے اس آنے والے بھکاری کو کلہاڑی بنا کے دی اور کہا کہ محنت کرو اور اس سے حلال رزق کماوَ۔ یہ عمل بھیک مانگنے سے کہیں بہتر ہے۔ اسی موقع پہ آپ ﷺ نے بھیک مانگنے والوں کے لئے وعید بھی سنائی۔
بھیک مانگنے کی بجائے محنت کو اختیار کرنے کے ثمرات اُس شخص کی زندگی پہ واضح طور پر نمایاں ہوئے، جس نے ابتدائی طور پر فقر و فاقہ کے عالم میں ہاتھ پھیلانے کو اپنی عادت بنا لیا تھا۔ لیکن جب اُسے دربارِ رسالت ﷺ سے یہ نصیحت ملی کہ ہاتھ پھیلانے کے بجائے ہاتھ سے کام لینا بہتر ہے، تو اُس نے اس رہنمائی کو دل سے قبول کیا اور محنت کا دامن تھام لیا۔ وقت گزرا، حالات بدلے اور وہی شخص جو کل تک بھیک مانگنے پر مجبور تھا، دوبارہ سے دربارِ رسالت ﷺ میں حاضر ہوا، مگر اس بار وہ کسی امداد یا شکوے کے لیے نہیں، بلکہ شکرگزاری اور اطمینان کے جذبات کے ساتھ آیا۔ اُس نے عرض کیا کہ اب وہ پہلے سے کہیں بہتر زندگی گزار رہا ہے اور یہ سب محنت، کوشش اور عزم کا نتیجہ ہے۔
یہ واقعہ اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ محنت ہی دراصل کامیابی کی کنجی ہے۔ محنت انسان کو نہ صرف خوددار بناتی ہے بلکہ اُسے دوسروں کا محتاج ہونے سے بھی بچاتی ہے۔ دنیا میں کوئی بھی ہنر، کوئی بھی فن یا کوئی مہارت ایسی نہیں جو بغیر محنت کے حاصل کی جا سکے۔ بلکہ اسی محنت کے بل بوتے پہ انسان اپنے اندر موجود صلاحیت اور اہلیت کو مزید بھی نکھار سکتا ہے۔
دوسری مثال میں اس کہانی کا ذکر ہے جسے کم و بیش چھوٹے بڑے، بچے بوڑھے سبھی سن چکے ہیں یا پڑھ چکے ہیں کہ ہمارے ہاں دادا پوتا ایک ہی نصاب (سلیبس) ہنڈھاتے (پڑھتے) آ رہے ہیں۔ ایک لکڑہارا دریا کے کنارے لکڑیاں کاٹ رہا تھا کہ کام کے دوران اس کا کلہاڑا دریا میں گر جاتا ہے۔ چونکہ لکڑیوں کے بیچنے ہی سے اس کی گزر بسر چلتی تھی تو وہ بہت پریشان اور دکھی ہوا کہ اب کیا ہوگا۔ اسی اثناء میں کوئی نیک دل فرشتہ (آپ اپنے مزاج اور ذوق کو مطابق فرشتے کی جگہ کوئی بھی مخلوق ڈال لیں مثلاً نیک دل جن، پری وغیرہ) وہاں آیا تو لکڑہارے سے پریشانی کا سبب پوچھا۔ لکڑہارے نے اپنی کلہاڑے کے دریا میں گرنے کا ذکر کیا۔
رحم دل فرشتے نے ڈبکی لگائی اور دریا سے سونے کا کلہاڑا نکال لایا لیکن لکڑہارے نے کلہاڑا لینے سے انکار کیا کہ یہ اس کا کلہاڑا نہیں ہے۔ فرشتہ پھر سے پانی میں غائب ہوا اور اس بار وہ چاندی کا کلہاڑا لایا لیکن لکڑہارے نے اس بار بھی یہ کہہ کے کلہاڑا لینے سے انکار کر دیا کہ یہ کلہاڑا بھی اس کا نہیں ہے۔ فرشتہ تیسری مرتبہ پانی میں میں کودا اور اس بار وہ لوہے کا کلہاڑا لایا جس دیکھتے ہی لکڑہارے نے خوشی سے چیختے ہوئے کہا کہ یہی میرا کلہاڑا ہے۔ فرشتہ اس لکڑہارے کی ایمانداری سے بہت متاثر ہوا اور اس نے تینوں کلہاڑے اس لکڑہارے کے دے دئیے۔
بظاہر یہ کہانی ایمانداری کے صلے کے طور پہ پیش کی جاتی ہے لیکن ایمانداری کی صفت بھی کامیابی کے رازوں میں سے ایک راز ہے۔ کتبِ احادیث میں نبی کریم ﷺ کی ایماندار تاجر کی فضیلت اور اسی طرح ملاوٹ کرنے والوں، منافع کی لالچ میں ذخیرہ اندوزی کرنے والوں، تجارت میں بے ایمانی کرنے والوں، قسم کھا کے مال بیچنے والوں کے بارے متعدد احادیث نقل کی گئی ہیں۔ ایمانداری کے نتیجے میں جب مخلوقِ خُدا کو سہولت اور نفع پہنچے گا تو یقیناً ان کی دُعا لکڑہارے کے فرشتے والا کام ہی کرے گی۔ دن دگنی اور رات چوگنی ترقی اپنی آنکھوں سے ہوتی ہوئی دیکھنے کے لئے اپنے کام میں ایمانداری شرط ہے۔
مذکوہ مثالیں اس امر کی گواہی دیتی ہیں کہ حالات جیسے بھی ہوں، اپنی بنیاد کے ساتھ چلنے ہی میں عافیت اور سہولت ہے۔ لکڑہارے کی طرح محنت اور ایمانداری کی راہ ہی کامیابی جیسی منزل کی طرف لے کر جائے گی۔ جب تک سانسوں کی ڈور قائم ہے تب تک زندگی کی گاڑی کو کھینچنا ہی ہے۔ اس کے لئے بھلے حالات موافق ہوں یا غیر موافق۔ حالات کا بہادری سے مقابلہ کرنا ہی جوانمردی کی بات ہے۔ حالات کا اتار چرھاوَ، آزمائش، امتحان یہ سب منزل کے راستے میں منہ کھولے ملیں گے لیکن ان سب سے لڑ کے جیتنا ہے۔ خود کو یک طرفہ ہار کے سپرد نہیں کیا جا سکتا۔ اپنی محنت اور ایمانداری کے باوجود بھی اگر منزل تک نہیں پہنچے تو بہت سوں کے لئے نشانِ منزل بنیں گے کہ آخر تک حتی المقدور محنت اور کوشش کی اور لڑ کے ہارا ہے۔

