Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Tauseef Rehmat
  4. Khargosh Aur Kachwey Ki Nayi Kahani

Khargosh Aur Kachwey Ki Nayi Kahani

خرگوش اور کچھوے کی نئی کہانی

لاہور اور لاہور کے رہنے والوں کی شہرت کی بھی اپنی ہی وجوہات اور توجیہات ہیں۔ روایتی طور کے لاہوری کھابے ہوں یا زبان دانی میں لاہوری ٹچ (انداز)، راستوں کی غلط نشاندہی کی بابت جگت ہو یا پتنگ باز سجنا کے نعرے، لاہوریوں پہ رنگ باز جیسا تاریخی جملہ چست ہونا ہو یا کسی کن ٹُٹّے پہلوان کی دودھ دہی کی دکان پہ رش، ہر بات اور ہر کام میں لاہوری اپنا ہی منفرد مقام رکھتے ہیں۔ لاہور باغوں کے علاوہ کالجوں کا شہر بھی کہلاتا تھا۔ ان باغوں اور کالجوں میں بھی بہت سی اقدار مشترک ہیں۔ کیونکہ ہر کالج کے ساتھ کہیں نہ کہیں باغ بھی مل جاتا تھا تو باغ اور کالج کے مابین ایک سے لوگوں کی مٹر گشت اور اقتداری حربوں سے یہ مشترک اقدار وجود میں آئیں۔

لاہوریوں کی ایک وجہ شہرت ان کے مروجہ القابات میں سے ایک 'رنگ باز' کہلایا جانا بھی ہے۔ اس کی وجہ تسمیہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں لیکن اس کا مفصل تذکرہ کسی اور وقت کو اٹھا رکھتے ہیں۔ فی الحال اشارتاً ہی لکھتے ہیں کہ ہمارے ہاں بھینس کی ایک نسل باقاعدہ 'نیلی' کے نام سے ایسی مشہور ہے کہ اس کی مانگ میں کبھی کمی نہیں آئی۔ تاریخ اور جغرافیے سے دلچسپی رکھنے والے اگر ان دو نکات (رنگ اور نیلی) میں مبہم تعلق ڈھونڈ لیں تو لاہوریوں کی رنگ باز والی شہرت انہیں بخوبی سمجھ آ جائے گی۔ ضمناً بات یاد آگئی کہ ایک روز بریانی کو دم دینے سے قبل اس پہ مختلف رنگوں کی برسات کر رہا تھا تو میرے قابل دوست انعام الحسن صاحب کچھ یوں گویا ہوئے: آج تو آپ 'رنگ بازی' کی بجائے 'رنگ پاشی' کر رہے ہیں۔

یوں مختلف علاقوں، وہاں کے باسیوں اور وہاں کی تہذیب و تمدن کے حوالے سے سینہ بہ سینہ داستانیں آگے بڑھتی رہتی ہیں۔ ایسی ہی ایک کہانی کچھوے اور خرگوش کی بھی ہے۔ جس میں دونوں آپس میں دوڑ کا مقابلہ کرتے ہیں۔ خرگوش کچھوے کے مقابلے اپنی برق رفتاری پہ نازاں ہوتا ہے اور دوڑ کے آغاز ہی میں قابلِ قدر سبقت لے جاتا ہے۔ چونکہ وہ کچھوے کی سست روّی سے آگاہ ہوتا ہے تو دو گھڑی سستانے کے لئے ایک جگہ رک جاتا ہے کہ کچھ دم لیا جائے، کچھوا تو اللہ جانے کب پہنچے گا۔ لیکن نیند کی دیوی خرگوش کو ایسا تھپک تھپک کے سلاتی ہے کہ کچھوا دوڑ کے لئے مقررہ اختتامی حد کو پہلے عبور کر جاتا ہے اور یوں اپنی سستی کے باعث خرگوش کو ندامت کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ کچھوا اپنی جہدِ مسلسل سے منزل تک پہلے پہنچنے میں کامیاب ہو جاتاہے۔

یہ وہ روایتی کہانی ہے جو درسی کتابوں میں بھی پڑھائی جاتی رہی اور اس سے اخذ کردہ سبق سے بھی ہم سب واقف ہیں۔ جیسے جیسے دور جدید تر ہوتا جا رہا ہے، اس کہانی کو بھی جدید خطوط پہ استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ اب تو بیماریوں کے جراثیم بھی ہمارے مدافعاتی نظام اور مروجہ دوائیوں پہ حاوی ہو چکے ہیں تو اس کہانی میں بھی جدت لانے کی ضرورت ہے۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ راہ چلتے ہوئے ایک خرگوش اور کچھوے کی ملاقات ہوگئی۔ رسمی علیک سلیک اور حال احوال کے بعد ایک دوسرے کی منزل اور سفر کی بابت پوچھا گیا۔ عقدہ کھلا کہ گو دونوں کی منزل ایک نہیں ہے لیکن کچھ فاصلہ انہیں ایک ہی راستے پہ سفر طے کرنا ہے۔ خرگوش کے دل میں بات آئی کہ اس کے آباوَ اجداد پہلے ہی کچھوے سے ہارنے کی خجالت برداشت کر رہے ہیں تو کیوں نہ آج پھر سے دوڑ کا مقابلہ رکھ لیں اور یوں اس بدنامی کا داغ کسی حد تک دھویا جا سکے۔ خرگوش نے کچھوے کے سامنے تجویز رکھی کہ کچھ سفر چونکہ ایک ہی راستے پہ کرنا ہے تو اس سفر کو دلچسپ، پُرجوش اور مسرور کن بنانے کے لئے دوڑ کا ایک مقابلہ کرتے ہیں۔ یوں سفر کچھ جلدی بھی کٹ جائے گا۔

کچھوا خرگوش کی بات سن کے مسکرایا اور اس مقابلے کے پیچھے چھپی خرگوش کی حسرت کو بھانپ گیا۔ کچھوے نے خرگوش سے بات چیت اور اس ملاقات کو سبق آموز بنانے کے لئے اسے اپنے ہاں کچھ دیر بیٹھنے کی دعوت دی۔ خرگوش نے دعوت اس لئے بھی قبول کر لی کہ یوں باہم بیٹھ کے مقابلے کی شرائط، اصول و ضوابط اور دیگر لوازمات طے کر لئے جائیں گے۔ ابتدائیے کے بعد کچھوا خرگوش سے کچھ یوں گویا ہوا کہ خرگوش میاں بظاہر ہم ایک راستے پہ کچھ سفر ایک ساتھ ہی طے کریں گے لیکن اس کے بعد ہمیں راستے بدلنے پڑیں گے کیونکہ ہم دونوں کی منزل مختلف اطراف میں ہے، اگر راستہ نہ بدلا تو راستے کا بدلہ برداشت نہیں کر سکیں گے۔

خرگوش کے تاثرات سے کچھوے کو پتا چلا کہ بات کو مزید بڑھانے اور کھولنے کی ضرورت ہے۔ کچھوے نے بات آگے بڑھائی کہ ہم دونوں (یعنی خرگوش اور کچھوا) دو مختلف پرجاتیوں (فائیلم) سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہمارے جسم کی ساخت اور بناوٹ بھی ایک جیسی نہیں ہے۔ ہمارے رہن سہن اور زندگی کے لوازمات بھی بہت مختلف ہے۔ ہمارے مسکن (ہیبیٹیٹ)، ماحول اور ضروریاتِ زندگی میں بھی تفاوت ہے۔ ہمارا کھانا اور کھانے کا نظام بھی جدا ہے۔ جب ہم کسی طور ایک جیسے نہیں، کوئی قدر مشترک نہیں، ہماری ذمہ داریاں ایک سی نہیں تو ہمارے درمیان مقابلے کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے۔ تم اپنی تیزرفتاری کے باعث جلد منزل پہ پہنچ کے جیت جاوَ یا میں مسلسل اور مستقل چلتے ہوئے ایک دن اپنی منزل پہ پہنچ جاوَں، ہماری یہ جیت محض انفرادی حیثیت میں ہوگی۔ اس لئے اس بیکار کی دوڑ میں پڑنے سے بہتر ہے کہ تم اپنی ذمہ داریاں بخوبی پوری کرو اور میں اپنی راہ لوں کہ اپنے فرائص بہ احسن ادا کر سکوں۔

یہی تمثیل بنی نوع انسان کے لئے بھی درست ہے کہ گو ہم سب ایک سے مسکن سے ہیں، ضروریات بھی ایک جیسی ہیں لیکن اس کے باوجود بھی ہر شخص اپنے آپ میں دوسرے سے منفرد ہے۔ اس کی سوچ، سوچنے کا انداز، اس کا نظریہ، اس کی شخصیت اسے دوسروں سے ممتاز کرتی ہے۔ اس انفرادیت کے باعث کوئی بھی کام ایک سے زائد طریقوں سے انجام دیا جا سکتا ہے۔ ہر کوئی اپنی منزل اور اس منزل تک پہنچنے کے لئے راہ اختیار کرنے میں آزاد ہے اور اس آزادی کا تقاضا یہی ہے کہ کسی سے بھی مقابلے کی روش رکھے بغیر اپنی راہ پہ مسلسل، مستقل اور پیہم محنت کی جائے کہ راہ کھوٹی ہو نہ منزل۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan