Khalam Khali
خالم خالی

صحرانووردی کا ابھی آغاز ہی تھا۔ منزل کی جانب چلنے والے اس پہلے قافلے میں ہم کُل ملا کر سات لوگ تھے۔ جن میں سے تین احباب کے ساتھ تو پہلے ہی سے یاد اللہ تھی اور باقی چار سے اس سفر کے دوران ہوگئی۔ سفر، بیماری، غربت اور درد میں اللہ کی یاد تو پھر آ ہی جاتی ہے۔ لیکن اگر یوں بھی کہا جائے کہ بس پھر تو اللہ ہی کی یاد آتی ہے تو بھی ہرگز مبالغہ نہ ہوگا۔ اس خالق و مالک کی یاد آ جانا بھی کسی نعمت سے کم نہیں۔ یہ یاد اس چیز کی غماز ہے کہ ابھی ناامیدی اور مایوسی اپنے پنجے پوری طرح سے گاڑھنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ ابھی دلوں میں کہیں نہ کہیں اس مالک کے نام کی لو جل رہی ہے، اس کے نام لیواوَں میں ابھی اس کے فضل و کرم اور جودوسخا کی آس باقی ہے۔
نئے دیس کا بھیس اپنانے میں کئی ماہ لگ گئے۔ سرکاری معاملات و کاغذات کا کٹھن مرحلہ پار ہوا تو کچھ کچھ ہوش سنبھلنے لگے اور گردوپیش کے حالات سے آگہی ہوئی۔ نئے وارد ہونے والے ساتوں احباب اپنی اپنی متعلقہ ذمہ داریوں میں جت گئے۔ یوں صبح سے شام، شام سے صبح، رہائش سے دفتر اور دفتر سے رہائش اور بسا اوقات دفتر سے پھر کئی اور دفتر تک کی واردات ہونے لگی۔ اس تلخی کو وقت کے مرہم نے کم کرنا شروع کیا اور جو کمی رہ گئی تھی وہ آنے والی راتب سے پوری ہونے لگی۔ جیسے جیسے گھروں اور جیبوں میں دانے آتے گئے ویسے ویسے سبھی سیانے بھی ہوتے گئے۔ ماحول کو مزید سہل اور پرکشش و جاذب بنانے کے لئے ہر کوئی اپنی سی کوشش میں لگ گیا۔
کام کی بھاگم بھاگ اور جلد سے جلد کام سمیٹنے کے لئے ایک دفتر سے دوسرے دفتر جاتے ہوئے اپنے ایک پرانے قافلہ نشیں سے ملاقات ہوئی جو مالیاتی امور کے شعبے میں ذمہ داریاں نبھا رہے تھے۔ رسمی علیک سلیک میں وہی رٹے رٹائے جملے دہرائے گئے۔ کاغذات کا پلندہ نپٹانے میں کچھ وقت لگ گیا تو موصوف کے چہرے پہ نظر پڑی، یوں محسوس ہوا کہ ابھی چند ثانئے قبل کہے گئے رسمی جملے محض رسماً ہی کہے گئے ہیں کیونکہ چہرے کے تاثرات اور ماتھے کی شکنیں تو ان الفاظ کی چغلی کھا رہی ہیں۔ گو کہ صاحب سے صاحب سلامت تو تھی لیکن نجی معاملات کو ٹٹولنا بھی مناسب نہ لگا۔ اِدھر اُدھر کی چند باتوں کے بعد جب روزمرہ کی زندگی اور زندگی کے سلوک کی بابت پوچھا تو ملنے والے جواب سے سارے جواب مل گئے۔
تلخیص نگاری کی بہترین مثال اس دن دیکھنے کو ملی۔ انتہائی کم، مناسب اور دھیمے انداز میں انہوں نے بتایا کہ پچھلے دنوں کے اخراجات کے باعث جیب پہ کیسا غیر معمولی اثر پڑا ہے لیکن اس پہ بھی اللہ کریم کا شکر ہے کہ مہینہ ختم ہو جانے میں بس چند دن ہی باقی ہیں اور جلد ہی تنخواہ مل جائے گی تو معاملات درست ہو جائیں گے۔ ایسا اکثر ملازمت پیشہ لوگوں کیساتھ ہوتا رہتا ہے۔ کسی ماہ کوئی ایسا ہی نادیدہ سا خرچہ آن ٹپکتا ہے اور سارے بجٹ کے بخئیے ادھیڑ دیتا ہے۔ وہ صاحب بھی ایسی ہی صورتحال کا شکار تھے۔ چونکہ خود مالیاتی امور کا علم رکھتے تھے تو خود کو تسلی دئے ہوئے تھے کہ چند دن کی تو بات ہے پھر سے پیسے آ جائیں گے تو یہ صورتحال نپٹ جائےگی۔
ہمارا سدا کا سیلانی مزاج عود آیا کہ فی الوقت اپنا کوئی ایسا خاص خرچہ نہیں تھا کہ پیسوں کو جوڑ جوڑ رکھنے کی ضرورت پڑتی تو "دتے میں سے دینے میں" کیا ہرج ہے۔ جونہی کام مکمل ہوا تو جاتے ہوئے کچھ پیسے ان کی نذر کئے کہ اس دنیا میں بھاری چیزوں میں سے ایک مرد کی خالی جیب بھی ہوتی ہے۔ بھلے چند دن ہی باقی ہیں لیکن حتمی دن کا تو پتا نہیں۔ بقول شخصے:
"تنخواہ" کا اک دن معین ہے
کیوں نیند رات بھر نہیں آتی
اللہ جانے اس ماہ تنخواہ کب آئے گی، اس اثناء میں اگر گھر پہ کوئی ضرورت پیش آ گئی تو کیا کریں گے۔ انہوں نے زیادہ پس و پیش نہیں کیا اور اس شرط پہ رکھ لئے کہ جس دن تنخواہ ملی، اسی دن یہ پیسے لوٹا دئیے جائیں گے۔ ان کے چہرے پہ پھیلنے والے طمانیت نے دل کو بڑا سکون بخشا کہ خالی جیب واقعی بھاری ہوتی ہے اور اس کا ادراک انہیں تھا، بس کسی سے کہتے ہوئے شرم و لحاظ آڑے تھا۔
ہمارے ہاں پنجاب میں بھی ایسا ہی رواج ہےکہ کسی کے گھر سے آئے ہوئے برتن خالی نہیں لوٹائے جاتے بلکہ ان میں حسبِ دستیاب اناج یا کچھ اور متبادل یا نعم البدل ڈال دیا جاتا ہے۔ تا کہ اظہارِ تشکر بھی ہوجائے اور اچھے "ویار" کی روایت بھی چلتی رہے۔ ایسا ہی کچھ معاملہ حضرتِ انسان کو یوم الدین پہ بھی درپیش ہوگا کہ جس کے بارے اللہ رب العزت نے فرمایا کہ:
ثُمَّ لَتُسُاَلُنَّ يَوُمَئِذٍ عَنِ النَّعِيُمِ (پھر اس دن تم سے نعمتوں کے متعلق پوچھا جائے گا)
جب پوچھا جائے گا تو کیا جواب ہوگا۔ ایک مخلوق اپنے خالق کو کیا جواب دے سکتی ہے۔ اس دن تو سب کا انفرادی امتحان ہوگا اور یوں ہر کسی کا نتیجہ بھی اس کے اعمال کے مطابق ہی نکلے گا۔ گو کہ وہاں کسی بھی قسم کا پچھتاوا، ندامت یا اظہارِ افسوس کام نہیں آئے گا کہ عمل کا وقت تو گزر چکا، اب تو جزا اور بدلے کا دن ہے لیکن اس کی رحمت، اس کے فضل، اس کے کرم کو مدنظر رکھتے ہوئے، اپنے چند ایک اعمال، جو محض اسی کی توفیق سے انجام پائے ہیں، پہ بھروسہ کرتے ہوئے، اس کے دئیے ہوئے برتنوں میں کچھ نہ کچھ لوٹانا بنتا ہے اور اس خیال پہ استاذ محترم انورمسعود نے کیا خوب کہا کہ:
حشر دیہاڑے اکھاں وچ میں بھرکے لے گیا ہنجو
کوہجی گل سی خالم خالی بھانڈے دا پرتاؤنا

