Four By Four
فور بائے فور

حضرتِ انسان ازل ہی سے سہولتوں اور سہل پسندی کا دلدادہ رہا ہے۔ خُلد سے نکالے جانے کے بعد سے انسان اپنے ماحول کو اور اپنے اردگرد سکون، خوشی اور آرام (کمفرٹ) کو بہتر سے بہتر کرنے کی جستجو میں لگا ہوا ہے۔ درختوں کے پتوں سے جسم ڈھانکنے سے کمخواب جیسی مخملی عبا کی کہانی ہو، چھاگل میں اکٹھے کئے ہوئے پانی سے "سٹرنگ" تک کا سفر ہو، میلوں اور پہروں ننگے پاوَں چھالے زدہ پیروں سے چلنے سے ہوائی جہاز تک کی داستاں ہو یا معمولی پتھروں کی تراش خراش سے جنگلی جانوروں کے شکار سے موشک مافوق صوت (ہائپرسونک میزائل) سے مہا شکاریوں کا یُدھ، یہ سب حضرتِ انسان کی جدت پسندی، خود کو ناقابلِ تسخیر بنانا اور خوب سے خوب تر کی تلاش کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
سفر کی صعوبتوں کو وسیلہ ظفر تک لانے کے لئے بھی بنی آدم نے بہت پاپڑ بیلے ہیں۔ پہئیے کی ایجاد سے پہلے تک تو سفر پیدل یا جانوروں کی پیٹھ پہ بیٹھ کے ہی ممکن تھا اور اس میں عیش اور متموّل پن کا اظہار ایسے ہی دکھایا جا سکتا تھا کہ سبھی مسافروں کے پاس اپنی اپنی الگ سے سواری ہو۔ پہئیے کی ایجاد کے بعد سے سہل کاری کا اک نیا سفر شروع ہوا۔ پھر پہئیے کی مختلف اور بدلتی اشکال نے کام کی رفتار، نوعیت، ہئیت اور طاقت بھی بدل دی۔ یوں اک سواری کئی کئی مسافروں اور ان کے سازوسامان کے لے جانے میں کام آنے لگی۔ سفر میں درکار سواریوں کے لئے گاڑیاں ہوں یا مال برداری کے لئے استعمال ہونے والی گاڑیاں، دونوں ہی نے انسانوں کے لئے سہولت اور آسانی پیدا کی۔
اسی طرز پہ ناہموار، مشکل، کٹھن اور دشوار گزار راستوں کے لئے جدت پسندی اور خوب تر کی جستجو نے گاڑیوں میں نعل بہ نعل گاڑیاں (فور بائے فور کار) متعارف کروائیں کہ ان میں صحرانووردی کا سا کوئی سفر ہو یا کوئی سفرِ کوہستانی درپیش ہو، یہ گاڑیاں پہاڑی راستوں کی چڑھائیاں چڑھنے اور صحرا کی وسعت میں دھنسے بغیر مسافر کو منزل تک آسانی سے پہنچا دیتی ہیں۔ ان گاڑیوں میں یہی اصول کاربند ہے تمام چاروں پہئیے بیک وقت زور لگاتے ہیں اور یوں گاڑی اپنی پوری طاقت سے پہاڑوں کی چڑھائیاں عبور کرتی جاتی ہے اور صحرا کی وسعت کا سینہ چیرتی گزر جاتی ہے۔ سڑک کیسی بھی ناہموار، پتھریلی، ریتلی یا ڈھلوان ہی کیوں نہ ہو یہ اپنے زور سے ایسے راستوں سے نکل ہی جاتی ہے۔
حال ہی میں اس کا ایک تجربہ جبل الاسود (کالا پہاڑ) جاتے ہوئے ہوا۔ کالے رنگ کا بھی کیا آہنگ ہے۔ اس کا ہر ڈھنگ اپنی انگ میں الگ ہی ترنگ رکھتا ہے۔ قرآن کے کالے حروف ہوں یا کعبے کا کالا غلاف، رات کی تاریکی میں چھایا کالا اندھیرا ہو یا سرکارِ دو جہاں کے بقعہَ نور جسمِ اطہر پہ کالی کملی۔ کسی کا کالا شاہ کالا دلدار ہو یا کسی کے پیا کا رنگ ہی کالا ہو۔ کالا رنگ ایسا ہی بقدرِ فہم پرکشش اور دیدہ زیب لگتا ہے۔ سانپ سی بل کھاتی منحنی سی مسلسل اوپر کو چڑھتی سڑک پہ دو رویہ ٹریفک کو جھیلتے ہوئے ایسی ہی نعل بہ نعل گاڑی (فور بائے فور کار) کی اشد ضرورت محسوس ہوئی۔ راستے میں ایک دو بار گاڑی کو سانس دلوانے کے باوجود بھی ڈھلوان عبور نہ ہو سکی تو وہیں سے مڑنے کا ارادہ کیا۔
اترتے ہوئے خیال کوندا کہ کبھی کبھار ایسے ہی نیکی اور بھلائی کے راستے میں بھی نفس اور شیطان کی چڑھائیاں اور وسوسوں کی بھاری ٹریفک آن ٹپکتی ہے۔ ایسے موقعوں پہ ہمیں بھی پورے ایمانی زور کی ضرورت پیش آتی ہے کہ ایک دفعہ اگر یہ نفسانی خواہشات کی چڑھائی چڑھ گئے تو پھر آگے کا بہت سا فاصلہ اسی رفتار و شتاب (مومینٹم) کی بدولت گزر جائے گا اور اگر قادرِ مطلق نے توفیق دی کہ اس کے قرب کی مزید خواہش بیدار ہوئی تو ایک اور نئی آزمائش یا ایک اور نیا امتحان پھر سے کسی اور چڑھائی کی صورت میں منہ کھولے استقبال کو ملے گا۔ دانائے راز کہتے ہیں کہ امتحان اسی کا لیا جاتا ہے جس کی ترقی مقصود ہوتی ہے۔
اس آزمائش یا امتحان سے گزرنے کے لئے ہمیں پھر سے اپنے ایمان، اخلاص، نیک نیتی اور توکل کی پوری قوت درکار ہوگی کہ ہمت کرکے، حوصلے کے ساتھ، نفس و شیطان کی تمام چالوں کو زیر کرتے ہوئے، نفس اور اس کی خواہشات کو کچلتے ہوئے اس امتحان سے نکل جائیں اور آخر میں کامیابی کی صورت میں ربِ ذوالجلال کا "فوزًا عظيمًا" کا وعدہ منتظر ملے گا اور یہ بات تو سبھی جانتے کہ اللہ کریم اپنے وعدے کے خلاف کبھی نہیں کرتا۔

